- فتوی نمبر: 9-271
- تاریخ: 04 فروری 2017
- عنوانات: خاندانی معاملات > منتقل شدہ فی خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وراثت کے احکام
استفتاء
*** نے اپنے چچا زاد بھائی *** کے ساتھ مل کر ایک مکان مشترکہ بحصہ برابر خریدا تھا۔ اس وقت مکان کا رقبہ ایک کنال اور ایک مرلہ یعنی 21 مرلہ تھا۔ بعد میں *** نے مشترکہ مکان میں سے 6 مرلہ اپنی بہن کے ہاتھ بیچ کر مبلغ 600 روپیہ اسی وقت وصول کر لیے تھے۔ باقی مکان کا رقبہ اب 15 مرلے ہے۔ *** کے والدین اور اس کی بیوی کا انتقال *** کی حیات میں ہی ہو گیا تھا، *** کی وفات کے وقت اس کے ورثاء میں دو بیٹے ***اور *** اور ایک بیٹی *** شامل تھی۔ سب سے پہلے *** کا انتقال ہوا، وہ غیر شادی شدہ تھا۔ اس کی کوئی اولاد نہ تھی۔ اس کے بعد *** کا انتقال ہوا، اس کا خاوند بھی پہلے ہی فوت ہو چکا تھا، اور اس کے ورثاء میں دو بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں۔ آخر میں ****** کا انتقال ہوا، اس کے ورثاء میں صرف ایک بیوہ ہے جو بے اولاد ہے، اس کے علاوہ *** کے باپ کے چچا زاد بھائی *** کی زندہ اولاد میں سے *** اور *** موجود ہیں۔ *** کی بیوی بھی اس کی زندگی ہی میں فوت ہو گئی تھی، اس کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی، یہ بیٹی بھی بعد میں فوت ہو گئی اور غیر شادی شدہ تھی، اس لیے کوئی اولاد اس کی نہ تھی۔ اب صرف *** اور *** حیات ہیں۔
اور ****** کی بیوہ کے ساتھ اسی مکان میں رہائش پذیر ہیں۔ ****** نے دو لاکھ پچاس ہزار روپیہ نقد ترکہ میں چھوڑا، جس میں سے ایک لاکھ روپیہ میت کی بیوہ خرچ کر چکی ہے، اور ایک لاکھ پچاس ہزار موجود ہے۔ بیوہ کی ملکیت میں 12 تولے سونا ہے جو اس کو شادی کے موقع پر ملا تھا، اور ماہوار پنشن 10 ہزار روپیہ ****** کی بیوہ کے نام منتقل ہے۔
مندرجہ بالا تفصیل کے مطابق مکان کی شرعی تقسیم کے بارے میں فتویٰ صادر فرمائیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ مذکورہ صورت میں ***اور***میں سے ہر ایک مشترکہ 21 مرلہ مکان میں سے ساڑھے دس مرلے کا مالک تھا، پھر***نے اپنے ساڑھے دس مرلے میں سے 6 مرلے چونکہ اپنی بہن کو بیچ دیے تھے، اس لیے وہ اب موجودہ پندرہ مرلے میں سے ساڑھے 4 مرلے کا مالک تھا۔ یہی ساڑھے 4 مرلے اس کے ورثاء میں یوں تقسیم ہوں گے کہ اس کے کل 24 حصے کیے جائیں گے، جس میں سے گل جاناں کے ہر بیٹے کو 2-2 ، اور اس کی ہر ہر بیٹی کو ایک 1-1 حصہ ملے گا۔ *** کی بیوہ کو 4 حصے اور ***کے دو بیٹوں *** اور***کو 6-6 حصے ملیں گے۔
5×3= 15×8=120 ***
بیٹا ***
2 |
بیٹا***
2×3 6×8 48 |
بیٹی ***
1×3 3 |
بھائی ***
2×2 4×8 32 |
3×2= 6×8= 48 ***مف 3×2= 8×6= 48
بہن ***
1×2 2 |
8×5= 40 *** 8×5= 40
بیٹا بیٹا بیٹی بیٹی بیٹی بیٹی
2×5 2×5 1×5 1×5 1×5 1×5
10 10 5 5 5 5
4×2= 8×10= 80 ***80 10
بیوی ***(باپ کے چچا زاد)
1×2 3×2
2 6
2×10 3×10 3×10
20 30 30
الاحیاء گل جاناں کی اولاد
بیٹا بیٹا بیٹی بیٹی بیٹی بیٹی بیوہ*****
10 10 5 5 5 5 20 30 30
2 2 1 1 1 1 4 6 6
2۔ ***بقیہ پندرہ مرلے میں سے ساڑھے دس مرلے کا مالک تھا، اس لیے اس کی وراثت اسی میں جاری ہو گی،*** اور ***دونوں ساڑھے دس مرلے میں سے نصف نصف کے مالک ہوں گے۔ صورت تقسیم یہ ہے:
5×2= 10 ***(***کا چچا زاد بھائی)
بیٹی
1
|
بیٹا (***) بیٹا (***)
2×2 2×2
4 4
2 بیٹی مف1
بھائی *** بھائی***
1 1
الاحیاء
بھائ***بھائی ***
5 5
1 1
3۔ *** کے نقد ترکہ دو لاکھ پچاس ہزار روپیہ میں سے اس کی بیوہ کو 62500روپے، جبکہ *** اور*** میں سے ہر ایک کو 93750 روپے ملیں گے۔ صورت تقسیم یوں ہے:
4×2= 8 ***250000
بیوی****
4/1 عصبہ
1×2 3×2
2 6
62500 93750 93750
پینشن بیوہ ہی کے نام ہے وہ اس کی اکیلی مالک ہو گی اور زیور کی بھی وہ اکیلی مالک ہے، ورثاء ان دونوں میں شریک نہ ہوں گے۔
چنانچہ احسن الفتاویٰ (9/301) میں ہے:
’’پینشن تنخواہ کا جزء نہیں بلکہ حکومت کی طرف سے انعام وتبرع ہے، اس لیے اس میں یہ تفصیل ہے کہ جو رقم اس شخص کی حیات میں قبضہ میں آگئی یا اس کے نام جمع کر دی گئی وہ اس کا مالک ہو گیا۔ لہذا اس میں وراثت جاری ہو گی۔ ۔۔۔ جو رقم نہ اس کے قبضہ میں آئی، نہ اس کے نام جمع ہوئی، وہ اس کا مالک نہیں ہوا۔ لہذا اس میں وراثت جاری نہیں ہو گی۔ بلکہ وہ حکومت کی صوابدید پر ہے، جس کو چاہے دے، دوسرے ورثاء کا اس میں کوئی حصہ نہیں۔‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved