- فتوی نمبر: 23-307
- تاریخ: 30 اپریل 2024
- عنوانات: مالی معاملات
استفتاء
السلام علیکم : مفتی صاحب ایک فیکٹری میں میں نے ایک مشین میں انویسٹ کیا تھا اس کے بارے میں یہ اسٹامپ لکھا تھا آپ پڑھ کے بتادیں جائز ہے کہ نہیں؟ اور میں آپ کو یہ بتا دوں کہ جب مشین بند ہوتو ہمیں کچھ نہیں ملتاجیسے کرونا کے وقت اور خراب ہونے کی صورت میں،اور جب مشین سیل ہوگی مشین توجتنے میں ہوگی اسی حساب سے سرمایہ تقسیم کیا جائے گا۔
تنقیح : مشین میں میرے 50 لاکھ لگے ہیں اور دوسرے فریق کے 26 لاکھ لگے ہیں، جگہ اسی کی ہے اور وہ اس مشین سے کیمیکل بنا کر فروخت کرتا ہے اس میں میرا سرمایہ شامل نہیں ہے ۔
اقرار نامہ مابین فریقین
منکہ*** واقع 32کلو میٹر لاہور روڈ شیخوپورہ بذریعہ*****د قوم باجوہ سکنہ چک نمبر136بھکھی کے والی تحصیل چک جھمرہ ضلع فیصل آباد(ڈائریکٹر)،*****سکنہ محلہ مسلم گنج خالد روڈ شیخوپورہ (چیف ایگزیٹو) فریق اوّل۔
****قوم راجپوت سکنہ راؤ ظفر ٹاؤن لاہور روڈ شیخوپورہ(فریق دوم) یہ کہ فریق اوّل متذکرہ ****** کے چیف ایگزیٹو اور ڈائریکٹر ہیں اور Preapitates calcium corbonate بنارے ہیں۔ جو کہ فریق اوّل اور فریق دوم نے ایک پلانٹ Calcium Corbonate (Used second hand) G.C.C (Granded کا خرید کیا ہے۔ جس کی مالیت 76 لاکھ روپے =76,00,000/- ہے، جوکہ فریقِ اوّل نے پلانٹ کے لیے مبلغ 26لاکھ روپے Invest کیے ہیں اور فریق دوم نے مبلغ 50لاکھ روپے =50,00,000/- روپے Invest کیے ہیں۔ جو فریق دوم نے بذریعہ چیک نمبر *** مبلغ 26لاکھ روپے MCB** لاہور برانچ اور چیک نمبر *****مبلغ 24لاکھ روپے بینک ***برانچ شیخوپورہ فریق اوّل کو اور کر دیئے ہیں۔ جوکہ مابین فریقین یہ طے پایا ہے کہ G.C.C پلانٹ سے جو جتنی مقدار میں بھی ایک ماہ میں Granded Cleium Corbonate تیار ہوگی، فی ٹن مبلغ =500/ روپے (پانچ فیصد روپے) فریق اوّل فریق دوم کو ادا کرے گا، یہ کہ اگر فریقین کو متذکرہ بزنس میں کوئی نقصان ہوا تو فریقین باہمی رضامندی سے مشین/پلانٹ متذکرہ کو فروخت کریں گے اور اُس تناسب سے جس تناسب سے مشین متذکرہ کی خریدنے کے لیے رقم invest کی ہے۔ فروختگی کے بعد جو رقم ملے گی باہمی تقسیم کریں گے۔ لہٰذا اقرار نامہ مابین فریقین بابت investment تحریر کر دیا ہے۔ تاکہ سند رہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ معاہدہ جائز نہیں ہے
توجیہ: چونکہ مذکورہ صورت میں فریق دوم نے صرف اس مشین میں رقم انویسٹ کی ہے اس لیے مذکورہ صورت کا حاصل یہ بنے گا کہ چونکہ وہ مشین دونوں فریقوں کے سرمایہ سے خریدی گئی ہے اس لیے وہ دونوں میں مشترک ہے اور فریق دوم مشین میں اپنا حصہ فریق اول کو کرایہ پر دے رہا اور اس کی اجرت یہ طے کر رہا ہے کہ کہ اس مشین سے جو کیمیکل بنے گا تو فی ٹن کے حساب سے فریق اول 500 روپے فریق دوم کو دے گا جبکہ اجارے کی مذکورہ صورت جائز نہیں بنتی کیونکہ اس صورت میں اجرت کی جہالت اور غرر لازم آتا ہے کہ نامعلوم کتنا کیمکل تیار ہو ،ہو نہ ہو (یعنی ضرورت ہی نہ پڑے جیسا کہ سائل نے کرونا کہ دنوں کا ذکر کیا ہے) نیز مذکورہ صورت کو سروسز میں مضاربت پر بھی محمول نہیں کیا جاسکتا کیونکہ مذکورہ صورت میں یہ طے نہیں ہے کہ اس مشین سے حاصل ہونے والے نفع کو فیصد کے حساب سے تقسیم کیا جائے گا بلکہ فکس فی ٹن 500 روپے طے ہیں۔
اس کی متبادل جائز صورت یہ ہے کہ فریق دوم مشین میں اپنا حصہ فریق اول کو ماہانہ کرایہ پر دے دے اور اس کا کرایہ طے کر لے پھر آگے فریق اول اس سے جتنا بھی کام کرے ، کرے یا نہ کرے فریق دوم کو بہر حال کرایہ ملےگا۔
المغني (6/ 7) میں ہےوالإجارة على ضربين أحدهما : أن يعقدها على مدة الثاني : أن يعقدها على عمل معلوم كبناء حائط وخياطة قميص وحمل إلى موضع معين فإذا كان المستأجر مما له عمل كالحيوان جاز فيه الوجهان لأن له عملا تتقدر منافعه به وإن لم يكن له عمل كالدار والأرض لم يجز إلا على مدة البحر الرائق (8/ 23) میں ہے:قال رحمه الله ( وفسد إجارة المشاع إلا من الشريك ) أطلق في قوله وفسد إلى آخره فشمل مشاعا يحتمل القسمة أو لا يحتملها وهو قول الإمام وقالا يجوز بشرط بيان نصيبه وإن لم يبين لا يجوز في الصحيح
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved