• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مشترکہ دکان اور مکان کی ورثاء میں تقسیم

استفتاء

تقریبا دو ماہ پہلے  میرے ماموں کا انتقال ہو گیا ہے۔ مفتی صاحب چند معاملات میں آپ کی رہنمائی چاہتا ہوں میرے ماموں کی کوئی  اولاد نہیں ہے، ماموں کے والدین فوت ہوچکے ہیں۔ ماموں کی وفات کے بعد ان کا ایک بھائی، پانچ بہنیں اور ان کی زوجہ حیات  ہے۔ ماموں کی ملکیت میں دو عدد مکان ہیں اور ایک دکان ہے جو کہ پگڑی  پر لی ہوئی  ہے۔ میں جن معاملات میں شریعت کے حساب سے رہنمائی چاہتا ہوں وہ  درج ذیل ہیں:

1۔ماموں کی ملکیت میں جو دو مکان ہیں ان میں ماموں کی زوجہ مطلب میری مامی کی آدھی ملکیت ہے،آدھا  مکان میرے ماموں کے نام رجسٹرڈ ہے اور آدھا  مامی کے نام اس بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟

2۔ ماموں کی پگڑی  کی دکان ہے جو انہوں نے زندگی میں لی تھی  اس کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟

3۔دکان میں سے جو منافع ماموں کو آ رہا تھا اب اس منافع میں شریعت کا کیا حکم ہے؟

4۔میرے ماموں کی وراثت کس طرح اور کن افراد میں تقسیم ہوگی ؟

5۔شریعت کے مطابق وراثت تقسیم کرنے کا کس کو حق حاصل ہے ؟

6۔ میرے ماموں نے اپنی زندگی میں کچھ لوگوں کو رقم قرض میں بھی دی تھی اس قرض کی رقم میں کس کا حق ہے اور اس کا کیا حکم ہے؟

وضاحت مطلوب ہے: پگڑی والی دکان کی کیا تفصیل ہے؟ دکان کس نے بنائی اور  اس میں کام وغیرہ کون کرتا رہا؟

جواب وضاحت: دکان ماموں اور تایا دونوں نے پگڑی پر لی تھی۔ مال بھی مشترکہ تھا اور منافع بھی دونوں کو آ رہا تھا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔مذکورہ دونوں مکانوں میں سے آدھا آدھا تو صرف آپ کی مامی کا ہے جس میں کسی اور کا کچھ حصہ نہیں باقی آدھے آدھے میں آپ کی مامی کا بھی حصہ ہے اور دیگر ورثاء کا بھی حصہ ہے جس کی تفصیل نمبر 4 میں آرہی ہے۔

2،3۔ پگڑی پر لی ہوئی دکان چونکہ  ماموں کی ملکیت نہیں ہے اس لیے اس دکان میں تو وارثت جاری نہ ہوگی البتہ اس کا آدھا سامان اور آدھا نفع ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے بقدر تقسیم ہوگا جس کی تفصیل نمبر 4 میں آرہی ہے اور باقی آدھا سامان اور آدھا نفع تایا کا ہوگا۔

4۔ماموں کی وراثت ورثاء میں اس طرح تقسیم ہوگی کہ کل ترکہ کے 28 حصے ہوں گے جن میں سے مرحوم کی بیوہ کے 7 حصے (25 فیصد ) اور مرحوم کے بھائی کے 6 حصے (21.42 فیصد )اور مرحوم کی بہنوں میں سے ہر بہن کے 3-3 حصے (10.71فیصد فی کس) ہوں گے۔

صورت تقسیم درج ذیل ہے:

7×4=28

بیوی1 بھائی5 بہنیں
4/1عصبہ
13
1×73×7
721
763+3+3+3+3

5۔ورثاء میں سے جو بھی اپنا حق لینا چاہے لے سکتا ہے اور جس کے قبضے میں وراثت ہو اس  پر ضروری ہے کہ حقدار کے مطالبے پر اس کو اس کا حق ادا کرے۔

6۔قرض کی رقم میں بھی تمام ورثاء نمبر 4  میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق حقدار ہیں۔

سراجی (ص:8) میں ہے:

فيبدأ بأصحاب الفرائض، وهوم الذين لهم سهام مقدرة فى كتاب الله تعالى ……..أما للزوجات فحالتان: الربع للواحدة فصاعدة عند عدم الولد وولد الابن وان سفل والثمن مع الولد او ولد الابن وان سفل………….. ثم بالعصبات من جهة النسب والعصبة: كل من يأخذ ما أبقته أصحاب الفرائض وعند الانفراد يحرز جميع المال.

سراجی (ص:36) میں ہے:

أما العصبة بنفسه فكل ذكر لا تدخل فى نسبته الى الميت انثى ………. ثم جزء أبيه أى الاخوة ثم بنوهم وان سفلوا.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved