• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مشترکہ کاروبار کی تقسیم اور کام کرنے والے کی اجرت

استفتاء

میرے والد صاحب کو تقریباً 11 سال ہوگئے ہیں فوت ہوئے۔ جس وقت وہ فوت ہوئے اس وقت ان کی وراثت کرایہ کی دکان میں مال تھا۔۔۔ جس کےلحاظ سے ایک حصہ 15 ہزار سے زائد نہ ہوتا لیکن اس وقت تمام ورثاء کی مرضی سے دکان کو چلانے کا حکم ہوا اور وراثت کسی نے نہ مانگی۔ اس وقت میں اور میرا بھائی دکان پر کام کرتے تھے جو اپنی خوشی سے ایک سال بعد دکان سے الگ ہوگیا اور دکان میں نے سنبھالی۔ بھائی کو تھوڑے تھوڑے کر کے وقتا فوقتاً دو لاکھ روپے دیے۔ تمام ورثاء کی مرضی سے بغیر حساب و کتاب کے، کیونکہ وہ کمزور تھے کارو بار کے لیے۔ اب ہم باقی 4 بہنیں اور 2 بھائی ہیں۔ بھائی کے حصے کی بھی یہ صورت ہے ان کو میری بھابھی نے قتل کروا دیا تھا جس کا اقرار خود قاتل اور قاتل کے ورثاء نے کیا۔ اب ہم اپنی بھابھی اور بچوں سے نہیں ملتے، بھابھی نے بچوں کو ملنے سے روک دیا ہے۔ اب ان کے حصے کی کیا صورت ہوگی؟ بھابھی سےتو ہم نے کبھی نہیں ملنا بچوں کو اپنا حصہ کیسے دیں؟ یا وہ حصہ باقی ورثاء  تقسیم کر لیں۔ اب آپ سے پوچھنا یہ ہے کہ  والد کے انتقال کے تقریباً 5 سال بعد میری شادی ہوئی۔ اب شادی کو گیارہ سال ہوگئے ہیں۔ میں نے اپنی ذات اور بیوی بچوں کے لیے کوئی رقم یا جائیداد مخصوص نہیں کی تو مطلوب یہ ہے کہ میرے حصے کی کیا صورت ہو گی؟ آیا میرا حصہ باقی ورثاء سے زائد ہوگا یا  برابر، کیونکہ میں نے دن رات اکیلے محنت کر کے کاروبار کو بڑھایا یا گذشتہ سال مکان بھی خریدا جس کی قیمت تقریباً 6 لاکھ ہوگی۔ میری والدہ میرے ساتھ رہتی ہیں گھر کا خرچہ ان کے ہاتھ ہے، ہماری بہنیں اور بھائی وغیرہ بھی ہمارے پاس آکر ٹھہرتے ہیں وہ سب خرچہ دکان سے ہوتا ہے۔

میں اگر اپنی تنخواہ کا اندازہ لگاؤں تو جس وقت والد صاحب فوت ہوئے تو اس وقت میری تنخواہ گھر کا خرچہ نکال کر تقریباً 100 روپیہ یومیہ ہونی چاہیے۔ شادی کے بعد دو سال تک تقریباً 200 روپیہ ہونا چاہیے۔ اور اس وقت تقریباً 300 روپے یومیہ ہونی چاہیے لیکن یہ تنخواہ میں نے کبھی نہیں نکالی اور نہ ہی کبھی کوئی فضول خرچی کی یا کوئی ذاتی جائیداد وغیرہ کے بارے میں سوچا۔کیا میں جو مکان ہے اس کو رکھ سکتا ہوں باقی مال وغیرہ کا حساب کر کے ورثاء کو وراثت دیدوں یا اس کو بھی وراثت میں تقسیم کروں؟

اب مال کی یہ صورت ہے کہ دکان تو کرایہ کی ہے، باقی دکان میں تقریباً 5 لاکھ کا مال ہوگا اور تقریباً 7 لاکھ لوگوں سے لینے ہیں۔ تو کل مالیت :مکان، مال، جو لینے ہیں 18 لاکھ بنتی ہے۔ اور تقریباً 6 لاکھ لوگوں کو دینے ہیں۔ تو اب ادائیگی وراثت کی تین صورتیں ہوگئیں۔ (۱) کل مالیت 18 لاکھ دینے ہیں 6 لاکھ وراثت 12 لاکھ میں۔ (۲) کل مالیت 11 لاکھ دینے ہیں ، 6 لاکھ وراثت، 5 لاکھ میں کیونکہ جو رقم لوگوں سے لینی ہے وہ ہمارے پاس نہیں ہے وہ لوگوں سے سالوں سے نیچے لگا کر رکھی ہے وہ رقم نہیں دیتے جو مال منگواتے ہیں اس کی رقم دیدیتے ہیں اصل رقم بقایا والی نہیں دیتے، کاروبار میں ایسا ہی ہوتا ہے جس کو ایک کاروباری بندہ اچھے طریقے سے سمجھ سکتا ہے تصدیق کرسکتے ہیں۔ تو اس رقم میں حصہ کس طرح دوں، جبکہ جن کے دینے ہیں وہ تو لازماً دینے ہیں جس کی ادائیگی کے بعد ہی وراثت تقسیم ہوسکتی ہے۔ اس کو ذرا اچھے طریقہ سے پڑھ کر مشورہ کر کے جواب لکھیے گا۔ کل مالیت 12 لاکھ ( مال کی رقم اور جو لینے ہیں) دینے ہیں 6 لاکھ، وراثت 6 لاکھ میں تقسیم ہوگی، جو مکان ہے اس کو شامل نہیں کیا وہ میرے گیارہ سالہ محنت کا نتیجہ ہے جس کو تمام ورثاء تسلیم کریں گے کہ میں نے انتھک محنت کے بعد مکان خریدا، رات کو دو بجے تک دکان بند کی ہے اور اب بھی مجھے گیارہ بج جاتے ہیں۔ بہر حال ان تینوں صورتوں میں کس صورت میں میں وراثت تقسیم کروں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں آپ نے تنہا کاروبار کیا ہے تو آپ مارکیٹ کے رواج کے مطابق اپنے اس کام کی اجرت لے سکتے ہیں۔ آپ کی جتنی اجرت بنتی ہے اگر آپ نے دکان سے اب تک جو اخراجات لیے ہیں وہ اس اجرت سے کم ہیں تو فرق آپ وصول کر سکتے ہیں اس کے بعد باقی مال میں تمام وارث اپنے حق وراثت کے مطابق شریک ہیں جن میں آپ بھی شامل ہیں۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved