• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مشترکہ کھاتہ اورمیراث کا حکم

استفتاء

ہمارے والد کے نام دو مکان ہیں ایک اچھڑے میں،یہ دونوں مکان دوسرا کوٹ لکھپت میں ،والد نے اپنی زندگی میں بنائے تھے جس  کی مکمل تیاری بڑے بیٹے نے کروائی ۔ہم چار بھائی اور چار بہنیں ہیں بڑے بھائی نے اپنے خرچے پر اپنے تین چھوٹے بھائیوں کو کویت بلایا تقریبا تیس سال پہلےاور چار بہنوں کی شادی کروائی ۔والدہ بیمار   رہنے لگی اور بیماری میں والدہ نے ایک مکان کوٹ لکھپت والا بہنوں کو زبانی کلامی دیاتاکہ دوسرے  اچھرے والے مکان کو بھائی اپنے پاس رکھ لیں، اس کے تقریبا ایک ماہ بعد  والدہ وفات پاگئی ۔اس فیصلے سے دو بھائی راضی ہیں اور دو راضی نہیں ۔بہنیں مطالبہ کررہی ہیں کہ کو ٹ لکھپت والا مکان ہمارے حوالے کیا جائے جو بھائی نہیں مان رہےوہ کہہ رہے ہیں ہمیں دونوں مکانوں سے حصہ دیا جائے ۔نیز چاربھائیوں میں سے چھوٹے تین نے جب حصہ مانگا تو بڑے بھائی نے کہاکہ میں نے تمہیں کویت بلایا تھا تیس سال پہلے جتنے پیسے میں ،میں نے بلایا تھا اس کے حساب سے مجھے پیسے ادا کیے جائیں اور دونوں گھروں کی تعمیر پر جو خرچہ کیا وہ بھی دیا جائے اس کے بعد جو حصہ تمہارا بنتا ہے وہ میں دے دوں گا ،بڑے بھائی کا ذاتی نظریہ یہ ہے۔ہم سب کے کچن میٹر وغیرہ علیحدہ علیحدہ ہیں اور مذکورہ والدہ کابیان  جو زبانی کلامی تھا اس کی شریعت حیثیت کیا ہے ؟باقی آپ شریعت کی روشنی  میں ہماری راہنمائی فرمائیں

وضاحت مطلوب ہے:

۱۔والد فوت ہوگئے ؟ کب فوت ہوئے ؟والدہ سے پہلے یا بعد میں ؟

۲۔بھائیوں کے کچن میٹر وغیرہ کب علیحدہ علیحدہ ہوئے؟ اس سے پہلے کیا مشترکہ کھاتا تھا؟اور مشترکہ کھاتے میں آپ کے ہاں کیا عرف ہے ؟ کیا ساری کمائی اور جائیداد والدین کی سمجھی جاتی ہےیا ہر کسی کی الگ الگ سمجھی جاتی  ہے؟

۳۔والدہ نے کوٹ لکھپت والے مکان کے بارے میں کیا کہا تھا ؟ان کے اپنے الفاظ اچھی طرح یاد کرکے نقل کیے جائیں ؟اس موقع پر موجودلوگوں سے بھی پوچھا جائے کہ وہ کیا الفاظ نقل کرتے ہیں ؟

جواب وضاحت:

۱۔والد صاحب والدہ سے پہلے وفات پاگئے ہیں تقریبا چودہ یا پندرہ سال پہلے ۔

۲۔والد صاحب کی وفات پر سارے علیحدہ علیحدہ ہو گئے تھے ،البتہ اس سے پہلے مشترکہ کھاتا تھا اور ان کے ہوتے ہوئے۔ ساری کمائی والد صاحب کو دی جاتی تھی ۔

۳۔والدہ نےیہ کہا تھا کہ بیٹیاں کوٹ لکھپت والا مکان لے لیں اور بیٹے اچھرے والا ،بس اور کچھ نہیں کہا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں چونکہ دونوں مکان مشترکہ کھاتے سے بنےتھےاس لیے یہ دونوں  مکان والد کےشمار ہوں گے اور ان کے فوت ہونے کے بعدتمام وارثوں میں ان کے شرعی حصوں کے بقدر تقسیم ہوں گے۔لہذادونوں مکانوں یا ان کی مالیت کو بارہ حصوں میں تقسیم کیا جائے گا جن میں سے دو ،دو حصے ہر بھائی کے اور ایک ،ایک حصہ ہر بہن کا ہو گا ۔کوٹ لکھپت والا مکان والدہ کی طرف سے بیٹیوں کو دینا درست نہیں تھا کیونکہ والدہ اس مکان کی تنہا مالک نہ تھیں لہذا اس مکان میں صرف بہنوں کا حق نہ ہو گا۔یہ سمجھنا بھی درست نہیں کہ والدہ نے اپنا حصہ ہبہ کردیا ہے کیونکہ ان کے الفاظ ہبہ کے نہیں ہیں بلکہ الفاظ تجویز اور خواہش کا اظہار ہیں اس لیے یہ مکان بدستور وراثت رہا۔

بڑے بھائی نے دوسرے بھائیوں کو کویت بلانے پر جو خرچہ کیا وہ اس خرچے کا مطالبہ نہیں کرسکتے کیونکہ یہ خرچہ اس دور میں کیا ہے جس دور میں سب مشترک رہتے تھے ۔البتہ مکانوں کی تعمیر پر جو خرچہ کیا ہے وہ اگر اس دور میں کیا ہے جس میں سب مشترکہ رہتے تھے تو اس کا مطالبہ بھی نہیں کرسکتے اور اگر بعد میں کیا ہے تو اس کا مطالبہ کرسکتے ہیں

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved