- فتوی نمبر: 5-319
- تاریخ: 24 جنوری 2013
- عنوانات: مالی معاملات > شرکت کا بیان
استفتاء
ہم دو بھائی *** اور *** ہیں۔ جو اس وقت کاروباری پارٹنر ہیں۔ ہماری چار بہنیں اور ایک والدہ ہیں۔ ہمارے والد صاحب 1980ء کو فوت ہوئے اور ترکہ میں 250000 روے چھوڑے۔ والد صاحب کی وفات کے بعد بڑے بھائی *** نے سرکاری نوکری شروع کرلی اور سات سال تک تقریباً 350000 والدہ کو دیے کیونکہ گھر کا سارا خرچہ خود چلاتی تھیں۔ سات سال بعد ترکہ 85000 روپے رہ گیا۔ سات سال کے بعد *** نے والدہ سے کاروبار کے لیے 85000 روپے لیے تاکہ کاروبار کرسکے اور والدہ نے دے دیئے اور کاروبار شروع کر لیا اس دوران بھائی نے سولہ سال نوکری کی اور والدہ کو تنخواہ دیتا رہا اور فی بہن 400000 روپے ان کی شادیوں پر خرچ کیا۔
بہنیں کہتی ہیں کہ 85000 روپے والد کا ترکہ تھا جس سے کاروبار کیا گیا اب جو کاروبار ہے اس کو ترکہ کے مطابق تقسیم کیا جائے۔ بھائی کہتے ہیں چونکہ کاروبار شروع ہونے سے پہلے 350000 روپے والدہ کو دے دیے تھے لہذا ان روپوں میں سے کاروبار شروع کیا۔ اور فی بہن 400000 روپے ان کو ادا کردیے تھے ان کا حصہ نہیں بنتا۔ اگر *** کاروبار کے لیے باہر ملک چلا جاتا اور وہاں کئی لاکھ بن جاتے تو بھی ترکہ کے مطابق تقسیم ہونا تھا۔
وضاحت مطلوب ہے: بہنوں کو چار چار لاکھ روپے کیا کہہ کر دیے تھے؟
بہنوں کی شادیاں کب کی گئی تھیں؟
جواب: کچھ بھی نہیں کہا گیا تھا۔
دو بہنوں کی والد صاحب کی وفات کے سات سال بعد ہوگئی تھیں۔ جبکہ دوسری دو کی 2004ء میں کی گئی تھیں۔
والدہ سے پیسے 85000 روپے کاروبار ہی کے لیے تھے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
جب سائل نے خود یہ کہا کہ 85000 روپے ترکے کے بچ گئے تھے۔ اور اس سے کاروبار شروع کیا گیا تو ظاہر ہے کہ ترکے کا
روپیہ وارثوں کا مشترکہ ہوتا ہے۔ لہذا اس میں سے بہنوں کا حصہ بھی ہوگا۔ البتہ جس بھائی نے کاروبار کیا وہ مارکیٹ ریٹ کے حساب سے اپنی تنخواہ یا خرچہ دیکھے کیا بنتا ہے۔ اگر برابر لیا ہے تو ترکہ مع نفع واجب تقسیم ہوگا۔ اگر کم لیا ہے تو پورا کرسکتا ہے اور زیادہ لیا ہے تو زائد قرض میں شمار ہوگا۔
نوٹ: بہنوں پر چار چار لاکھ کا خرچہ ان کے نکاح پر ہوا تو جو خاص زیور اور کپڑے دے گئے وہ والدہ اور بھائی کی طرف سے ہدیہ سمجھا جائے گا۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved