• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر

مشترکہ گھر میں تقسیم میراث کاحکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

میرے والد صاحب کا انتقال 31 جنوری 1991 میں ہوا والد صاحب کی وفات ہارٹ اٹیک سے ہوئی ۔ہم چار بہن بھائی ہیں، بڑا بھائی عامر علی ، بڑی بہن ،بہن چھوٹا بھائی تنویر احمد۔

والد صاحب کے انتقال کے وقت بڑا بھائی جس کی عمر اس وقت تقریبا 18 سال تھی بڑی بہن سولہ سال اور میری عمر چودہ سال جبکہ چھوٹے بھائی کی عمر گیارہ سال تھی ۔والد صاحب نے اپنے ترکہ میں ایک کرائے کی دکان واقع ٹھوکر نیاز بیگ اور ایک قطعہ مکان 5مرلہ واقع نیوٹاؤن کھاڑک ملتان روڈ لاہور چھوڑے۔ بھائی کے بقول دکان میں تقریبا 50 ہزار مالیت کا سامان تھا ،والد صاحب کے مرنے کے بعد سارا نظام بڑے بھائی نے چلایا ،چار سال بعد چھوٹا بھائی بھی کاروبار میں شامل ہو گیا، بڑی بہن کی شادی  1999میں ہوئی ،میری شادی فروری 2001 میں ہوئی ،بڑے بھائی کی  شادی اکتوبر 2001 میں ہوئی چھوٹے بھائی کی شادی 2006 میں ہوئی۔ وقت کی مناسبت سے بڑے بھائی نے ہماری شادیاں کروا دیں ،وقت گزرتا چلاگیا، کاروبار میں ترقی ہوتی گئی۔ اب دونوں بھائیوں کے پاس 8 کروڑ روپے کی جائیداد ہے بشمول دوگھرایک پانچ مرلہ جو والد  صاحب کا تھا اور ایک 10مرلہ جو انہوں نے خود بنایا ہے ،دو دکانیں دو گاڑیاں ہیں ،ہم نے حصہ مانگا تو انہوں نے والد صاحب کا جو گھر کرایہ پر دیا ہوا ہے اس کے کرایہ میں سے  پانچ لاکھ روپے کا چیک بھیجا اور کہا کہ والد صاحب کے مکان میں تمہارا حصہ 10 لاکھ بنتا ہے باقی پانچ لاکھ بعد میں دے دوں گا ،دکان میں حصہ نہیں بنتا کیونکہ میں نے اور چھوٹے بھائی نے ساری محنت کی ہے لہٰذا اس کاروبار میں تمہارا کوئی حصہ نہیں۔ برائے مہربانی قرآن و سنت کی روشنی میں ہماری رہنمائی فرما دیجئے میں شاید اس سے حصہ نہ مانگتی ہے کیونکہ بڑے بھائی نے ہماری شادی کروائی ہے لیکن میں خود کرائے کے مکان میں رہتی ہوں مجبوری ہے مجھے پتہ ہے کہ بھائی مجھے معاف نہیں کرے گا ۔

نوٹ :بڑے بھائی نے حج بھی کیا ہوا ہے اور دو عمرے بھی ،میری شادی میں پانچ تولے زیور اور اپنی شادی میں پچیس تولے زیور ،میری شادی میں بارات کاکھانا بھی نہیں دیا گیا۔

وضاحت مطلوب ہے:

دوکان میں کیا سامان تھا اور کاروبار کیا تھا ؟

جواب وضاحت :کریانے کی دکان تھی والد صاحب کا یہی کاروبار تھا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جب آپ کے والد صاحب کا انتقال ہوا تھا اس وقت جو ورثہ موجود تھے وہ اپنے اپنے حصے کے بقدر میراث میں شریک تھے، بعد میں وہی سرمایہ کاروبار میں استعمال ہواہے اور اسی سے نفع آیا ہےیا اس کی ویلیو بڑھی ہے۔اس لیے اضافے میں بھی سب ورثاء  اپنے اپنےشرعی حصوں کے بقدر شریک ہیں، اوراس سرمائے کی تقسیم موجودہ حساب سے ہوگی۔ البتہ جن بھائیوں نے اتنے عرصے میں کام کیا ہے تو ان کو اتنے عرصے کا اپنی محنت کا عوض علیحدہ سے ملے گا۔ اب تک جو ذاتی اخراجات لیے ہیں وہ معاوضے میں شمار ہونگے اگر لیے ہوئے اخراجات اتنا عرصہ کام کی اجرت سے کم ہیں تو فرق وصول کرسکتے ہیں اس کے بعد باقی مال میں تمام وارث اپنے حق وراثت کے مطابق شریک ہیں۔

حاشية ابن عابدين (6/ 472)

تنبيه يقع كثيرا في الفلاحين ونحوهم أن أحدهم يموت فتقوم أولاده على تركته بلا قسمة ويعملون فيها من حرث وزراعة وبيع وشراء واستدانة ونحو ذلك وتارة يكون كبيرهم هو الذي يتولى مهماتهم ويعملون عنده بأمره وكل ذلك على وجه الإطلاق والتفويض لكن بلا تصريح بلفظ المفاوضة ولا بيان جميع مقتضياتها مع كون التركة أغلبها أو كلها عروض لا تصح فيها شركة العقد ولا شك أن هذه ليست شركة مفاوضة خلافا لما أفتى به في زماننا من لا خبرة له بل هي شركة ملك كما حررته في تنقيح الحامدية

 ثم رأيت التصريح به بعينه في فتاوى الحانوتي فإذا كان سعيهم واحدا ولم يتميز ما حصله كل واحد منهم بعمله يكون ما جمعوه مشتركا بينهم بالسوية وإن اختلفوا في العمل والرأي كثرة وصوابا

صورت تقسیم یہ ہو گی کہ کل ترکہ کے چھ حصے کیے جائیں ہر بیٹے کو دو اور بیٹی کو ایک ایک حصہ ملے گا۔

 

تقسیم کی صورت درج ذیل ہے:

 

6

بیٹا    ————               بیٹا—————-                            بیٹی—————                           بیٹی

2               2                      1                      1

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved