- فتوی نمبر: 32-56
- تاریخ: 04 اپریل 2025
- عنوانات: حظر و اباحت > کفار اور گمراہ لوگوں سے معاملات
استفتاء
میرا سوال یہ ہے کہ میں جس دکان پر کام کرتا ہوں اس کے اونر (مالک) کا نام جیرام ہے، کافی لوگ کہتے ہیں کہ یہ نام مسلمان کو نہیں لینا چاہیے۔ کیا ان کی یہ بات درست ہے؟
وضاحت مطلوب ہے: کیا وہ شخص مسلمان نہیں ہے؟ اس کا نام زبر ، زیر کے ساتھ بتائیں۔
جواب وضاحت: وہ شخص ہندو ہے۔ جِیرَام جی ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں مسلمانوں کو ہندو کا نام "جیرام جی” لینے کی گنجائش ہے۔
امداد الفتاویٰ (4/318) میں ہے:
سوال: یہاں کے اکثر مسلمان مختلف اشیاء کے تاجر ہیں اور اُن کی زیادہ تر خریدوفروخت ہندوؤں کے ہاتھ ہے کبھی معاملہ بیع تعاطی کے مثل کرتے ہیں اور بسا اوقات نسیئۃً بغیر سُود؛ اس لئے ہندوؤں کا نام ہندی میں اپنی بہی میں یادداشت اور معاملہ فہمی کے لئے لکھا کرتے ہیں اور بدون ہندی میں لکھے مفر نہیں ، اور بغیر اُس کے کام کا ہونا دشوار ہے؛ کیونکہ ہندی کا رواج ہے اور اکثر ہندوؤں کے نام ایسے ہوتے ہیں کہ جس کے شروع میں یا آخر میں اُن کے اصنام یا دیوتا اور ان کے بزرگوں کے نام جیسے مہادیو، رام، نرائن، پرمیشور، لچھمن وغیرہ ہوتے ہیں ، مسلمانوں کو اپنی بہی میں ان کا نام ہندی یا اردو میں خصوصاً اُس شخص کو کہ جو مسائل دینیہ سے کچھ وافق ہو لکھنا جائز ہے یا نہیں ؟ وجہ شبہ یہ ہے کہ جناب رسول مقبول صلی اﷲ علیہ وسلم نے عتمہ کا نام عشاء رکھا، تو آپ نے صحابہ رضی اﷲ عنہم کو عشاء کو عتمہ کہنے سے منع فرمایا لہٰذا خطرہ یہ گزرتا ہے کہ یہ بھی اسی قبیل سے ہو؟
الجواب: وہاں تو ضرورت نہیں عشاء بھی کہہ سکتے ہیں ، اور یہاں ضرورت ہے؛ کیونکہ یہ اعلام ہیں اور کوئی طریقہ سہل امتیاز کا نہیں ۔
وقد قال النبي صلی اﷲ عليه وسلم: أنا ابن عبد المطلب ولا یجوز التسمية بعبد المطلب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved