• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مستعمل پانی سے استنجاء کرنا

  • فتوی نمبر: 12-16
  • تاریخ: 30 مارچ 2018

استفتاء

وضوء کے  پانی سے طہارت حاصل کی جا سکتی ہے؟

وضاحت مطلوب ہے۔

وضوء کےپانی سے کیا مراد ہے؟وضوء کے لئے رکھا ہوا پانی؟ یا وضوء کا بچا ہوا پانی؟یا وضوء میں استعمال ہونے والا پانی؟

طہارت سے کیا مراد ہے؟

دوبارہ وضوء کرنا ،یا استنجاء کرنا ؟

جواب وضاحت:

وضوء میں استعمال کیا ہوا پانی ہے،اور استنجاء میں استعمال کرنا ہو۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

وضوء میں استعمال کیے ہوئے پانی سے استنجاء کر سکتے ہیں البتہ بلا ضرورت ایسا نہیں کرنا چاہئے للاختلاف فی طہارتہ۔

فتاوی شامی1/391 میں ہے:

الماء المستعمل طاهر وليس بطهور لحدث بل لخبث على الراجح المعتمد، قال الشامى لخبث أي نجاسة حقيقية، فإنه يجوز إزالتها بغير الماء المطلق من الائعات خلاف لمحمد.

فتاوى عالمگیری 1/22میں ہے:

اتفق أصحابنارحمهم الله أن الماء المستعمل ليس بطهور حتى لا يجوز التوضؤ به واختلفوا في طهارته قال محمدرحمه الله : هو طاهر وهو رواية عن أبي حنيفةرحمه الله وعليه الفتوى. كذا في المحيط.

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved