• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مطالبہ کے باوجود لیٹ ٹاپ واپس نہیں کیا پھروہ چوری ہوگیا تواس کے ضمان کاحکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

فریق اول کا موقف:

گزارش ہے کہ ایک مسئلہ دریافت کرنا تھا میں ایک جامعہ میں ملازم ہوں تو میرا ذاتی لیپ ٹاپ تھا اس میں جامعہ کا ڈیٹاتھا تو مدرسے سے چھٹیاں ہونے لگیں تو ہمارے جامعہ کے ایک استاد نے مجھ سے میرا لیپ ٹاپ مانگا کیونکہ چھٹیوں میں انہوں نے رزلٹ بنانا تھا میں نے ان کو دے دیا اور خود چلے پر چلا گیا یا چھٹیوں کے دوران لیپ ٹاپ دفتر میں ان کے استعمال میں تھا ان کے ساتھ ایک اور استاد بھی اس دفتر میں تھے تو دفتر سے لیپ ٹاپ گم ہوگیا  دفتر میں دو  افراد تھے ان میں سے ایک نے میرا لیپ ٹاپ لیا تھا چلے کے دوران میں نے مولانا صاحب کو کال کی کہ میں ایک بندہ آپ کے پاس بھیج رہا ہوں ہو  آپ انہیں لیپ ٹاپ دے دیں لیکن مولانا صاحب نے کہا آپ چلے میں ہیں آپ کو ضرورت نہیں ہے خیر عید کے  بعد میں جامعہ میں آیا تو میں نے ان سے لپٹ ٹاپ کا مطالبہ کیا انہوں نے کہا میں نے دفتر میں رکھا تھا اور میں رمضان میں آیا نہیں یہاں سے پتہ نہیں کون لے گیا۔

مسئلہ یہ پوچھنا تھا  کہ میرے لیپ ٹاپ کا ذمہ دار کون ہے؟ میں اس کا مطالبہ کس سے کروں؟

(2) اور کیا اس لیپ ٹاپ کی قیمت لو ں یا اس جیسا لیپ ٹاپ؟

نوٹ: جب اس آدمی نے لیپ ٹاپ دفتر میں رکھا تھا تو اس کی اطلاع بھی نہیں کی۔

مزید وضاحت :

رمضان میں جس وقت یہ لیپ ٹاپ وہ دفتر تعلیمات میں رکھ کر گئے تھے تو انہوں نے نہیں بتایا کہ میں یہاں رکھ کر جا رہا ہوں اور مولانا عاقب  صاحب نے ناظم تعلیمات صاحب سے مذاکرہ کیا تھا کہ آپ لیپ ٹاپ کی حفاظت نہیں کرتے جس کی وجہ سے پہلے ایک لیپ ٹاپ چوری ہو چکا ہے اس لیے اب آپ نے اس لیپ ٹاپ کی حفاظت کرنی ہے۔یہ چوری ہونے کا معاملہ رمضان کی چھٹیوں میں ہوا اس وقت خادمین مدرسہ  کے علاوہ اور مدرسہ میں کوئی بندہ نہیں تھا طالب علم بھی موجود نہیں تھے مولاناکہتے ہیں میں رمضان سے پہلے جاتے ہوئے مدرسہ کا لیپ ٹاپ الگ سے لاک میں رکھ کر گیا تھا کہ آپ چلے سے واپس آئیں گے اپنا لیپ ٹاپ لے جائیں گے میں نے کہا آپ مجھے اطلاع کرتے کہ  آپ کا لیپ ٹاپ باہر  پڑا ہے میں نے کہا آج مدرسہ کھلے پانچ دن ہو گئے ہم دفتر میں آتے رہے ہم نے ٹیبل کے نیچے لیپ ٹاپ نہیں دیکھا۔

مولانا کہتے ہیں اگر فتویٰ دار الافتاء  سے میرے خلاف آیا تو ضمان دینے کو تیار ہوں

وضاحت مطلوب ہے :

مذکورہ دفتر کی چابی کس کس کے پاس تھی؟

 جواب وضاحت :

دفتر کی چابی دو بندوں کے پاس تھی ایک مولانا احسان صاحب دوسرے مولانا عبدالعزیز صاحب۔

مزید وضاحت مطلوب ہے :

کیا فریق دوم کو اس بیان سے اتفاق ہے ؟اگر اتفاق ہے تو تائیدی دستخط کردیں اور اگر اختلاف ہے تو اختلاف لکھوائیں۔

فریق دوئم کا موقف:

1۔احقر سے یہ مذاکرہ نہیں ہوا۔

2۔ تقریبا 20 شعبان  سے بندہ جامعہ حاضر نہیں ہوا

3۔لیپ ٹاپ دفتر تعلیمات میں محفوظ تھا جبکہ لاک کی تین چابیاں  تھیں( 1) ناظم(  2) معاون (3)استقبالیہ کے پاس ہوتی ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں چونکہ دفتر کی چابی متعدد افرادکےپاس تھی اس لیےایسی صورت میں لیپ ٹاپ کو بغیرتالے کے کھلاچھوڑ دیناکوتاہی ہے،لہذا مذکورہ شخص آپ کےلیپ ٹاپ کی مثل یا اس کی قیمت دینے کاذمہ دار ہے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved