- فتوی نمبر: 33-232
- تاریخ: 24 جون 2025
- عنوانات: مالی معاملات > زراعت و زمینداری > مزارعت کی ناجائز صورتیں
استفتاء
1۔ایک آدمی نے دوسرے شخص سے عقد مزارعت کیا اس طرح کہ مالک کی زمین ہوگی اور کاشتکار زمین میں اپنے ذاتی خرچے سے ٹیوب ویل بنائے گاا ور (1) بیج (2)عمل (3) آلہ کاشت یہ سب کاشتکار کے ہوں گے اورآمدنی کے دو حصے ہوں گے ایک حصہ کاشتکار کا اور ایک حصہ مالک زمین کا ہوگا اب یہ صورت جائز ہے یا نہیں؟
2۔دوسری صورت یہ ہے کہ مالک زمین کہے کہ اب ٹیوب ویل پر جو خرچہ ہوا ہے مثلا ایک لاکھ روپے فی الحال تم دے دو اور بعد میں یہ خرچہ میں تمہیں واپس کر دوں گا کاشتکار اس پر راضی ہے کیا یہ صورت جائز ہے یا نہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔مذکورہ صورت جائز نہیں کیونکہ مذکورہ صورت میں عقد مزارعت میں عامل کے ذمے ایسے کام کی شرط لگائی جارہی ہے جس کا نفع مزارعت كے بعد بھی باقی رہے گا جو کہ جائز نہيں اور اس سے مزارعت فاسد ہو جاتی ہے
2۔مذکورہ صورت بھی جائز نہیں کیونکہ مذکورہ صورت میں عقد مزارعت میں قرض کی شرط لگائی جا رہی ہے جو کہ جائز نہیں ۔
بدائع الصنائع فی ترتيب الشرائع (5/ 263) ميں ہے:
اما الشرائط المفسدة للمزارعة ……..(ومنها) : أن يشترط صاحب الأرض على المزارع عملا يبقى أثره ومنفعته بعد مدة المزارعة كبناء الحائط والسرقند واستحداث حفر النهر ورفع المسناة ونحو ذلك مما يبقى أثره ومنفعته إلى ما بعد انقضاء المدة؛ لأنه شرط لا يقتضيه العقد»
الدر مع الشامی(7/536) میں ہے:
ما يبطل بالشرط الفاسد ولا يصح تعليقه به ……… المزارعة والمعاملة اي المساقاة لانهما اجارة
قوله لانهما اجارة فيكونان معاوضة مال بمال فيفسدان بالشرط الفاسد ولا يجوز تعليقهما بالشرط كما لو قال زارعتك ارضي او ساقيتك كرمي علي ان تقرضني الفا او ان قدم زيد،وتمامه في البحر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved