• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مضاربت ختم کرنے کےبعد مضارب سے نفع لینا

  • فتوی نمبر: 13-191
  • تاریخ: 16 جنوری 2019

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

مضاربت کی بنیاد پر سرمایہ لگایا پھر ایک سال کے بعد دکاندار نے کہہ دیا کہ آپ کا سرمایہ اب میں واپس کردوں گا ہماری مضاربت ختم لیکن پھر ایک سال تک بہت تھوڑی رقم قسط وار واپس کی اور اس رقم سے اپنا کاروبار چلاتا رہا ۔کیا سال کی مدت کے بعد سابقہ نفع کے انداز ے سے جبتک رقم واپس نہ ہو نفع لیا جاسکتا ہے؟

وضاحت مطلوب ہے :

۱۔ کیا مضاربت ختم کرنے پر رب المال بھی راضی تھا؟

۲۔ اس مضارت کے معاملے کو کچھ تفصیل سے بیان کریں کہ آپس میں آپ کا معاہدہ کیاتھا اور اس کی عملی صورت کیاتھی؟

جواب وضاحت:

۱۔ راضی تھا۔

۲۔ ایک بندے کا عینکوں کا کاروبار ہے ہم نے اسے رقم دی اور یہ طے ہوا کہ وہ چائنہ سے مال لاکر بیچے گا اس کی اپنی رقم بھی تھی مگر یہ طے ہوا ہماری رقم کا حساب علیحدہ ہوگا۔نفع تیس فیصد ہمارا اور ستر فیصد ان کاہو گا ۔چنانچہ اس نے مال لاکربیچا اور ہمیں نفع دیا پھر دوبارہ مال لا کربیچا اور نفع دیا پھر اس نے سال بعد کہا کہ اب ہماری مضاربت ختم اور رقم کی واپسی کے لیے اس نے کچھ وقت مانگا اور چھ مہینے کا وقت طے ہوا لیکن اس نے نہیں دیا اور کہا کہ اب ماہانہ دوں گا مگر کچھ رقم دی ۔اب سال مزید گزر چکا ہے تو ہم نے اس سے کہا کہ تم ہماری رقم استعمال کررہے ہو تو ہمیں اس پر اسی حساب سے نفع دو وہ اس پر راضی ہے ۔کیونکہ ورنہ اسے رقم دینی پڑے گی تو کیا ہمارا مطالبہ کرنا درست ہے ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جب آپس کی رضامندی سے مضاربت کامعاملہ ختم ہو جائے تو اس کے بعدمضاربت کی بنیاد پر نفع لینا جائز نہیں لہذا آپ کا مطالبہ درست نہیں ،البتہ اگر دونوں فریق راضی ہوں تو یہ صورت ہوسکتی ہے کہ آپ اپنی رقم تھوڑی تھوڑی کر کے ڈالروں یا ریال کی صورت میں کچھ نفع رکھ کر وصول کرتے رہیں البتہ اس صورت میں ڈالر یا ریال پر عقد کی مجلس میں قبضہ ضروری ہے تاکہ بیع الکالی بالکالی نہ بنے ۔

في شرح المجلة۔ماده:(1353)

(تنفسخ الشرکة بفسخ احدالشريکين لکن علم الآخر بفسخه شرط فلا تنفسخ الشرکة مالم يکن فسخ احدهما معلوما للآخر)

واطلاق هذه المادة يقتضي صحة انفراد احدهما بالفسخ وان کان مال الشرکة عروضا هذا هو المختار کما علمت آنفا وقيد الزيلعي فسخ احدهما الشرکة بکون المال دراهم او دنانير فافادعدمه لو عروضا کما في المضاربة وهو قول الطحاوي واتفقوا في المضاربة انه لو فسخا ها والمال عروض يصح الفسخ ولو فسخها احدهما لايصح الااذا کان نقودا والفرق ان مال الشرکة في ايديهمامعاوولايةالتصرف اليهما جميعا فيملک کل نهي صاحبه عن التصرف في ماله نقدا کان او عروضا بخلاف مال المضاربة فانه بعد ما صار عروضا ثبت حق المضارب فيه لاستحقاقه ربحه وهو المنفرد بالتصرف فلايملک رب المال نهيه فتح کذا في الدر وحواشيه مع زيادة من البحر والزيلعي۔۔۔۔۔

الدرالمختار:

ويملک المستقرض القرض بنفس القبض عندهما۔۔۔۔۔۔فجاز شراء المستقرض القرض ولو قائما من المقرض بدراهم مقبوضة فلو تفرقا قبل قبضها بطل لانه افتراق دين عن دين۔وقال الشاميؒ في تحته:

قوله(بدراهم مقبوضة الخ)في البزازية من آخر الصرف اذا کان له علي آخر طعام او فلوس فاشتراه من عليه بدراهم وتفرقا قبل قبض الدراهم بطل(411/7)۔۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved