- فتوی نمبر: 13-112
- تاریخ: 15 مارچ 2019
- عنوانات: خاندانی معاملات
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عرض یہ ہے کہ میرے شادی ہوئی تھی عبد الحکیم سے ۔پھر میرا بیٹا پیدا ہوا، چار ماہ بعد عبدالحکیم کاانتقال ہو گیا ۔سسرال والوں نے مجبور کرنا شروع کیا کہ دیور سے نکاح کر لو مگر مجھے پسند نہیں تھا ۔سسرال والوں نے دھمکی دی کہ اگر تم نے یہ نکاح نہیں کیا تو ہم بیٹا لے لیں گے ۔میں سسرال میں تھی اور میرا میکہ نہیں ہے لہذا مجبور ا شادی کرنی پڑی ۔پھر روز روز کی لڑائی جھگڑے اور نان نفقہ ،خرچ وغیرہ نہ دینے کی وجہ سے مجھے خلع لینا پڑا مگر اس نے خود طلاق نہیں دی اور عدالتی اعتبار سے فیصلہ میرے حق میں ہوا اب بھی یہ کہتے ہیں کہ بیٹا دو گے پھر طلاق دینگے میرابچہ بہت چھوٹا ہے فیصلہ کے بعد تین سال سے میں نے بہت کوشش کی کہ مجھے طلاق دے دیں مگر نہیں دے رہے۔فتوی بھی لیا مگر طلاق کا نہیں آیا پھر ایک دن میری سہیلی میرے پاس آئی اور کہا کہ کسی طرح اس مسئلہ کا حل نکالیں کافی عرصہ ہو گیا ہے کسی طرح راضی ہو جائیں تو میں نے کہا کہ نعوذ باللہ اگر اللہ تعالی بھی زمین پر آجائیں اور راضی ہونے کو کہیں تو بھی راضی نہ ہوں گی پھر مجلس ختم ہو نے کے بعد میں نے توبہ بھی کی اور کلمہ بھی پڑھا۔ان کفریہ کلمات سے نکاح ٹوٹ گیا ؟اور طلاق واقع ہوگئی ؟اور کونسی طلاق واقع ہوئی رجعی یا بائن یا مغلظہ؟
برائے مہر بانی میری مدد فرمائیں اور اس شخص سے میری جان چھڑائیں میں اپنے بچے کا مستقبل بچانا چاہتی ہوں ۔سسرال نہایت غریب اور جاہل ہیں اور بچے کو سنبھالنے والا پروش کرنے والا کوئی نہیں سوائے بوڑھی ساس کے ۔اور اگر تجدید نکاح کا حکم ہے اور عورت دوبارہ نکاح نہیں کرنا چاہتی تو کیا حکم ہے ؟میں دوبارہ کرنا بھی نہیں چاہتی ہوں ۔
تنقیح
۱۔ خلع لینے کی وجوہات کیا تھیں ؟
۲۔ کیا خاوند عدالت میں حاضر ہوا تھا ؟
۳۔ اگر ہوا تھا تو اس نے کسی بات کا زبانی یا تحریری اعتراف کیا ہے؟
۴۔ اگر خاوند نفقہ نہ دیتا تو عورت گذر بسر کیسے کرتی رہی ؟
جواب وضاحت :
۱۔ نان نفقہ نہیں دیتا تھا اور ہماری آپس میں بنتی بھی نہیں ۔
۲۔ جی خاوند حاضر ہوا تھا ۔
۳۔ نان نفقہ کے حوالے سے کہاتھا کہ میں نہیں دیتا کیوں کہ میں ابھی خود پڑھ رہا ہوں ۔
۴۔ میں جامعہ اشرفیہ کے سکول میں ملازمت کرتی تھی ۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں اگر واقعتا (۱)شوہر نان نفقہ نہیں دیتا تھا اور (۲)بیوی نے اپنا نان نفقہ معاف بھی نہیں کیا تھا(۳) اور تنسیخ نکاح کی درخواست بھی اس وجہ سے دی تھی کہ اس کا شوہر اسے نان نفقہ نہیں دیتا تھا (۴)اور عدالت کے کہنے پر بھی شوہر نان نفقہ دینے پر آمادہ نہ ہوا (۵)اور عدالت نے نان نفقہ نہ دینے کی بنا(بنیاد)پر تنسیخ نکاح کا فیصلہ کردیا (۶)اور شوہر بیوی کی عدت گزرنے تک نان نفقہ دینے پر آمادہ نہیں ہوا تو ایسی صورت میں عدالت کا فیصلہ بیوی کے حق میں ایک بائنہ طلاق شمار ہو گا جس کی وجہ سے سابقہ نکاح ختم ہو جائے گا اور بیوی کو آگے نکاح کرنے کی اجازت ہو گی ۔چنانچہ حیلہ ناجزہ (ص:72طبع دارالاشاعت ) میں ہے:
’’زوجہ متعنت (جو باوجود قدرت کے بیوی کے حقوق نان نفقہ وغیرہ ادا نہ کرے)کو اول تو لازم ہے کہ کسی طرح خاوند سے خلع وغیرہ کرلے لیکن اگر باوجود سعی بلیغ کے کوئی صورت نہ بن سکے تو سخت مجبوری کی حالت میں مذہب مالکیہ پر عمل کرنے کی گنجائش ہے ۔۔۔۔۔۔اور سخت مجبوری کی دوصورتیں ہیں :ایک یہ کہ عورت کے خرچ کا کوئی انتظام نہ ہو سکے یعنی نہ تو کوئی شخص عورت کے خرچ کا بندوبست کرتا ہو اور نہ خود عورت حفظ آبرو کے ساتھ کسب معاش پر قدرت رکھتی ہوالخ‘‘
تنبیہ: مذکورہ صورت میں اگر چہ خود عورت حفظ آبرو کے ساتھ کسب معاش پر قدرت رکھتی ہے لیکن مالکیہ کے نزدیک یہ شرط نہیں ’’حیلہ ناجزہ ‘‘میں مذہب مالکیہ کو علی الاطلاق نہ لینے کی وجہ عدم ضرورت بیان کی گئی ہے ۔چنانچہ حیلہ ناجزہ کے حاشیہ(72) میں ہے :
وهذاا لحکم عند المالکیة لا یختص بخشیة الزنا وافلاس الزوجه لکن لم نأخذ مذهبهم علی الاطلاق بل أخذناه حیث وجدت الضروة المسوغة للخروج عن المذهب‘‘
ہم نے اپنے فتوے میں مذہب مالکیہ کو علی الاطلاق اس لیے لیا ہے کہ اب عدالتیں انپے فیصلوں میں اس شرط کو (یعنی عورت کے حفظ آبرو کے ساتھ کسب معاش کی قدرت کو )ملحوظ نہیں رکھتیں اور قضائے قاضی رافع للخلاف ہوتی ہے۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved