- فتوی نمبر: 33-95
- تاریخ: 24 اپریل 2025
- عنوانات: عبادات > زکوۃ و صدقات > مصارف زکوۃ کا بیان
استفتاء
میری 18 سال کی بھانجی ہے،اسکے والد ڈیڑھ سال سے گھر چھوڑ کر چلے گئے ہیں اور اس کا ایک چھوٹا بھائی 12 سال کا ہے اور ان بچوں (بھانجا، بھانجی) کی والدہ دو جگہ نوکری کر کے گھر کا خرچہ چلا رہی ہیں ۔بچی (بھانجی) کے پاس پہننے کے لیے تھوڑا سا زیور ہے۔کیا اس صورت میں بھانجے یا بھانجی کو زکوۃ دے سکتے ہیں؟
وضاحت مطلوب ہے:(1) بھانجی کے پاس کتنا زیور ہے اور اس کے علاوہ اور کیا کچھ ہے مثلا نقدی یا پلاٹ وغیرہ؟(2) بھانجے کی ملکیت میں ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کے بقدر مال یا ضرورت سے زائد کچھ سامان تو نہیں؟ جواب وضاحت:(1) صرف دس سے پندرہ گرام سونا ہے اور کچھ نہیں ہے۔ (2) بھانجے کے پاس کچھ بھی نہیں ہے، باپ عرصے سے چھوڑ کر جا چکے ہیں ماں کماتی ہے اس سے گھر چلتا ہے آمدنی کا اور کوئی ذریعہ نہیں ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں آپ بھانجی کو زکوۃ نہیں دے سکتے البتہ بھانجے کو زکوۃ دے سکتے ہیں لیکن بھانجا چونکہ بظاہر نابالغ ہے اس لیے اسے دی ہوئی زکوٰۃ کو خود اس کے علاوہ کسی اور پر خرچ نہیں کرسکتے۔ نیز اگر مذکورہ صورت میں اس بھانجے، بھانجی کی والدہ یعنی آپ کی بہن مستحق زکوٰۃ ہوں تو انہیں بھی آپ اپنی زکوٰۃ دے سکتے ہیں۔
تو جیہ: مذکورہ صورت میں بھانجی چونکہ 10، 15 گرام سونے کی مالک ہے جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت سے زیادہ ہے جس کی وجہ سے اس کو زکوۃ نہیں دے سکتے اور بھانجا چونکہ ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت کے بقدر مال کا مالک نہیں ہے جس کی وجہ سے اس کو زکوۃ دے سکتے ہیں۔
ہندیہ (1/189) میں ہے:
لا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصابا أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضا للتجارة أو لغير التجارة فاضلا عن حاجته في جميع السنة هكذا في الزاهدي والشرط أن يكون فاضلا عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه، ومركبه وسلاحه، ولا يشترط النماء إذ هو شرط وجوب الزكاة لا الحرمان كذا في الكافي.
شامی(3/344) میں ہے:
وقيد بالولاد لجوازه لبقية الأقارب كالإخوة والأعمام والأخوال الفقراء بل هم أولى؛ لأنه صلة وصدقة.
شامی(3/359) میں ہے:
دفع الزكاة إلى صبيان أقاربه برسم عيد أو إلى مبشر أو مهدي الباكورة جاز
(قوله: إلى صبيان أقاربه) أي العقلاء وإلا فلا يصح إلا بالدفع إلى ولي الصغير
فتاویٰ قاضیخان (1/190) میں ہے:
ولو قبض الصغير وهو مراهق جاز وكذا لو كان يعقل القبض بان كان لايرمى ولا يخدع عنه.
شامی(5/562) میں ہے:
ويباح لوالديه أن يأكلا من مأكول وهب له، وقيل لا، انتهى، فأفاد أن غير المأكول لا يباح لهما إلا لحاجة.
الاشباه والنظائر (ص:264) ميں ہے:
وإذا أهدي للصبي شيء وعلم أنه له فليس للوالدين الأكل منه بغير حاجة.
فتاوی دارالعلوم دیوبند (5/246) میں ہے:
سوال: نابالغ کو زکوۃ دی جا سکتی ہے یا نہیں؟
جواب: نابالغ محتاج کو زکوۃ دینے سے زکوۃ ادا ہو جاتی ہے۔
بہشتی زیور(ص:679) میں ہے:
مسئلہ: جو چیز نابالغ کے ملک ہو اس کا حکم یہ ہے کہ اسی بچے کے کام میں لگانا چاہیے کسی کو اپنے کام میں لانا جائز نہیں خود ماں باپ بھی اپنے کام میں نہ لاوے نہ کسی اور بچہ کے کام میں لگاویں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved