• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

نابالغ حافظ قرآن لڑکے کی امامت

استفتاء

مفتی صاحب !  نماز ِ عصر کا وقت ہے  ۔ مسجد میں نمازی جمع ہیں ۔ایک نابالغ حافظ قرآن لڑکا ہے جو کہ قرآن مجید کے معنی اور مطالب نہیں جانتا اور دیگر احکام شریعت سے بھی کما حقہ واقف نہیں ہے ۔ نماز کی امامت کراتا ہے ۔جب کہ ایک بالغ عالم ِ دین جو کہ ترمذی شریف اور دیگر کتب حدیث پڑھاتے رہے  ہیں اور احکام شریعت سے بخوبی واقف ہیں مسجد میں نماز ِ عصر کے وقت موجود ہوتے ہیں ۔ کیا ان کی موجودگی  میں بارہ تیرہ سال کا نابالغ  حافظ قرآن لڑکا نماز کی امامت ان سے اجازت لیے بغیر کراسکتا ہے ؟ جب کہ عالم ِ دین اور نابالغ لڑکا دونوں مقامی ہیں ۔ ان دونوں میں سے کس کی امامت افضل ہے ؟ گر حفظ مراتب نہ کنی زندیقی ۔ تحریری جواب عنایت فرماکر عند اللہ ماجور ہوں ۔

تنقیح : مسئلہ کا تعلق مسجد قباء  اہل حدیث ( واقع نیو  چوبرجی پارک ) سے ہے۔اس مسجد میں امام   صاحب تو متعین ہیں  لیکن وہ اکثر نہیں آتے بالخصوص عصر میں۔انتظامیہ بھی اس لڑکے کی امامت پر راضی ہے اور امام صاحب بھی ۔ سائل کا انتظامیہ سے تعلق نہیں ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

فقہ حنفی کی رو سے اگرچہ امام کا بالغ ہوناشرط  ہے  لیکن چونکہ مسئلہ کا تعلق اہل حدیث کی مسجد ہے  اور اہل حدیث نابالغ کی امامت کو درست سمجھتے ہیں اس لیے مذکورہ صورت میں یہ سوال بے فائدہ  ہے کہ ” نابالغ لڑکا  نمازکی امامت کراسکتا ہے   یا نہیں   ؟”

باقی چونکہ اس مسجد میں دوسرے مکتبہ فکر کے لوگ بھی نماز پڑھتے ہیں اس لیے انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ امام ایسے آدمی کو مقرر کرے جس کے پیچھے سب کی نماز ہوجائے ۔نیز افضل یہ ہے کہ ایسےشخص کو امام بنایا جائے جس کی قراءت بھی صحیح ہو اور نماز کے مسائل سے بھی بخوبی واقف ہو چاہے وہ مکمل حافظ قرآن ہو یا نہ ہو تاہم اگر انتظامیہ اس پر عمل نہیں کرتی تو حنفی بالغ مقتدیوں کو چاہیے کہ وہ اس نابالغ امام کے پیچھے نماز نہ پڑھیں کیونکہ فقہ حنفی کی رُو سے بالغ کی نابالغ کے پیچھے نماز نہیں ہوتی ۔

ہدایہ (1/ 57) میں ہے :

«وأما الصبي فلأنه متنفل فلا يجوز اقتداء المفترض به»

بدائع الصنائع  (1/ 144) میں ہے :

 والاصح ان ذلك لا يجوز عندنا، لا في الفريضة ولا في التطوع؛ لأن تحريمة الصبي انعقدت لنفل غير مضمون عليه بالإفساد، ونفل المقتدي البالغ مضمون عليه بالإفساد فلا يصح البناء .

بدائع الصنائع   (1/ 157) میں ہے :

«وأما بيان من هو أحق بالإمامة وأولى بها فالحر أولى بالإمامة من العبد، والتقي أولى من الفاسق، والبصير أولى من الأعمى، وولد الرشدة أولى من ولد الزنا، وغير الأعرابي من هؤلاء أولى من الأعرابي لما قلنا، ثم أفضل هؤلاء أعلمهم بالسنة وأفضلهم ورعا وأقرؤهم لكتاب الله – تعالى – وأكبرهم سنا   ….. والمستجمع فيه هذه الخصال من أكمل الناس ….. فأما إذا تفرقت في أشخاص فأعلمهم بالسنة أولى إذا كان يحسن من القراءة ما تجوز به الصلاة .

مسائل بہشتی زیور ( 1/145) میں ہے :

امامت کے صحیح ہونے کی شرطیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بالغ ہو۔ نابالغ کی امامت جب کہ اس کے پیچھے بالغ مقتدی ہوں صحیح نہیں ۔

مسائل بہشتی زیور ( 1/154) میں ہے :

سب سے زیادہ استحقاق امامت اس شخص کو ہے جو نماز کے مسائل خوب جانتا ہو بشرطیکہ ظاہراً اس میں فسق وغیرہ کی بات نہ ہو اور جس قدر قراء ت مسنون ہے اسے یاد ہو اور قرآن صحیح پڑھتا ہو ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved