• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

نفع کی مقدارِ شرعی

استفتاء

غلہ منڈی کے صدر صاحب کی طرف سے طے ہے کہ صبح سب سے پہلے جس دکان پر بولی لگے گی وہاں پر سب حاضر ہوں وہاں سے ریٹ کھلتا ہے اور پتہ چلتا ہے کہ کونسی چیز کس ریٹ پر ہو گی۔ پھر اس کے مطابق باقی دکانوں پر ریٹ چلتا ہے۔

1۔          کیا یہ طریقہ کار شرعاً درست ہے ؟

2۔          شریعت میں نفع کی کیا حد ہے ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ مذکورہ طریقہ کار شرعاً درست ہے اس میں کوئی قباحت نہیں۔

2۔ شریعت نے نفع کی کوئی ایسی مقدار متعین نہیں کی جس سے تجاوز کرنا جائز نہ ہو۔ بلکہ اس کو تجارتی حالات، علاقے، وقت اور طلب و رسد جیسے عوامل پر چھوڑا ہے البتہ اس میں نرمی، آسانی اور کم نفع کی ترغیب دی گئی ہے۔ لیکن اگر کسی وقت تاجر حضرات نفع خوری میں ظلم زیادتی کرنے لگیں اور خریداروں کو اس سے نقصان پہنچ رہا ہو تو حکومت اشیاء کے نرخ بھی مقرر کر سکتی ہے جن کی پابندی ضروری ہو گی۔اسی طرح تاجروں کی کوئی یونین یا کمیٹی وغیرہ باہمی مشاورت سے نفع اور ریٹ کے بارے میں کوئی اصول طے کر لے تو ایسا کرنا شرعاً درست ہے۔اور اسکی پابندی بھی ضروری اور لازمی ہے۔

١۔  النساء: ٥٩

 یآیها الذِین آمنوا اطِیعوا الله واطِیعوا الرسول وأولِي الأمرِ مِنکم فِإن تنازعتم فِي شي فردوه ِإلی اللهِ والرسولِ ِإن کنتم تؤمِنون بِاللهِ والیومِ الآخِرِ ذ لِک خیر وأحسن تأوِیلاً.

٢۔ الصحیح للبخاری: ٢٠٧٦

رحم الله عبداً سمحًا إذا باع سمحًا إذَا اشتریٰ سمحًا إذا اقتضیٰ.

٣۔  الدر المختار :٦ /٣٩٩

ولا یسعر حاکم (لقوله علیه الصلاة والسلام : لا تسعروا فإن الله هو المسعر القابض الباسط الرازق( إلا إذا تعدی الأرباب عن القیمة تعدیاً فاحشاً فیسعر بمشورة اهل الرأي۔

قلت: وأفاد أن التسعیر في القوتین لا غیر وبه صرح العتابي وغیره، لکنه إذا تعدی  أرباب غیر القوتین وظلموا علی العادة فیسعر علیهم الحاکم بناء علی ما قال أبو یوسف: ینبغی أن یجوز. ذکره القهستاني فإن أبا یوسف یعتبر حقیقة الضرر کما تقرر فتدبر.

تحته في حاشیة ابن عابدین:

قوله( تعدیًّا فاحشا) بینه الزیلعي وغیره بالبیع بضعف القیمة ط …… والله تعالیٰ أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved