• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

نفقہ نہ دینے سے خلع کے متعلق سوال

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

میرے اور شوہر کے باہمی تعلقات کشیدہ تھے ۔ حالات بدستور برے رہے ، اور خلاصی کیلئے میں نے خلع کیلئے کورٹ میں اپیل دائر  کی ۔ شوہر اسوقت بیرونِ ملک جاچکے تھے ، (دورانِ خلع کیس سماعت ) انکی غیر موجودگی میں ، انکا وکیل اور انکا چھوٹا بھائی کورٹ میں حاضر ہوتے رہے ، جس وقت  انہیں نوٹس جاتا ۔ 3 ماہ کیس جاری رہا ، جس میں انکا وکیل اور  بھائی حاضر ہوتا رہا ۔ 3 ماہ کے بعد کورٹ نے یکطرفہ فیصلہ خلع د ے دیا ۔

(واضح رہے کہ دورانِ کیس شوہر کیطرف سے دیا گیا مہر واپس نہ کیا گیا تھا ۔ )

خلع ہوگئی ۔ کچھ عرصہ کے بعد تحقیقاً یہ بات سامنے آئی کہ خلع اسلامی طرز پہ قائم نہیں ہوئی ہے ۔ اور یہ کہ میرا نکاح شوہر سے بدستورقائم ہے ۔

بعد ازاں شوہر سے رابطہ کیا گیا کہ رجوع کر لو ۔ متعدد دفعہ کہا گیا ان سے رجوع کے بارے میں ۔

حالیہ صورت یہ ہے کہ نہ شوہر رجوع کرتے ہیں نہ طلاق دیتے ہیں ،نہ رہائش کی کوئی صورت ہے اور نہ ہی اتنے عرصہ میں کوئی نان نفقہ دیا ۔اس صورت حال کو طویل 14 سال گزر گئے ہیں ۔اس صورتحال کا کیا حل ہے ؟میرے لئےرہائش کی کیا صورت ہے ؟

1۔سائلہ کے زبانی بیان سے مندرجہ ذیل باتیں بھی معلوم ہوئی ہیں ۔

شوہر کے وکیل نے عدالت میں مصالحت کی پیش کش کی کہا کہ ہم صلح کرنا چاہتے ہیں ۔ البتہ نفقہ ادا کرنے پر رضا مندگی ظاہر کی یا نہیں ۔ یہ بات سائلہ کو یاد نہیں ۔

2۔خاوند کے بیرون ملک چلے جانے کے بعد لڑکی اپنے والدین کے ہاں لاہور میں رہنے لگی جب کہ لڑکے کا مطالبہ یہ  تھا کہ وہ لڑے کے گھر اسکے والدین کے ساتھ جھنگ میں رہے ، جسے لڑکی نے قبول نہیں کیا اور اسی وجہ سے نفقہ بھی لڑکی کو نہیں دیا گیا ۔

3۔البتہ اب لڑکا  لڑکی کو کسی طرح آباد کرنے کو تیار نہیں ۔ کئی سالوں  سے باہر ہے نہ اپنے پاس بلانے کو تیار ہے نہ ہی یہاں پر آباد کرنے کو تیار ہے ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں عورت نے چونکہ نفقہ کی عدم ادائیگی کی وجہ سے فسخ نکاح کی درخواست دائر کی تھی لہذا اوّلاً عدالت کو چاہئے تھا کہ وہ خاوند کو نفقہ کی ادائیگی پر راضی کرتی اگر وہ راضی ہوجاتا تو مزید کاروائی کی ضرورت نہیں تھی ۔ جبکہ عدالت نے مصالحت پرشوہر کی بواسطہ وکیل رضامندگی کے باوجود نکاح کو فسخ کر دیا ،لہذاشرعًافسخ نکاح کا مذکورہ فیصلہ درست نہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ جب عورت خاوند کے گھر میں رہنے کیلئے تیار نہیں تھی تو وہ نفقہ کی مستحق ہی نہ رہی ۔ اس لئے کہ فقہاء نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ یہ نفقہ احتباس (یعنی خاوند کے گھر میں رہنے ) کے بدلے میں ہے ۔ لہذا اسوجہ سے بھی نفقہ کی عدم ادائیگی کی بنیاد پریہ نکاح شرعًا فسخ نہیں ہوا ۔

لہذاخاوند کو یا تو طلاق دینے پر راضی کیا جائے چاہے کچھ مال کے عوض ہو اور اگر وہ اس پر راضی نہیں تو اب دوبارہ فسخ نکاح کی درخواست دائر کی جائے اور بنیاد اس بات کو بنا یا جائے کہ لڑکا نہ لڑکی کو رکھنے کو تیار ہے اور نہ طلاق دینے کو اور عورت اب مزید صبر نہیں کر سکتی اور اگر عدالت اب اس مقدمہ کو دوبارہ نہیں سنتی تو یہ معاملہ  پنچائیت میں پیش کر کے نکاح فسخ کرایا جا سکتا ہے ۔پنچائیت میں ایک ماہر مفتی کاہونا بھی ضروری ہے

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved