• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

نئی پارٹی کے ساتھ معاملہ

استفتاء

*** اپنا مال ڈیلروں کو فروخت کرتی ہے پھر آگے عام گاہکوں کو وہ خود فروخت کرتے ہیں ۔*** نئی پارٹی کو ادھار

(Credit)کی پیشکش نہیں کرتی۔ بلکہ پہلے اس کے کاروبار کے حجم کو دیکھتی ہے اور اسے کہتی ہے کہ وہ پہلے دو تین ماہ نقد پر چلے کیونکہ نئے بندے کو ادھار پر مال دینا پی کمپنی کے لیے نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے۔ لہٰذا پہلے دو تین ماہ اسے چیک کیا جاتا ہے اور اسے کہا جاتا ہے کہ پیسے دو اور مال لو۔ اگر کوئی نئی پارٹی کسی کے واسطے (Reference) سے آئی ہو تو اتنا کر دیا جاتا ہے کہ اسے مال پہنچا دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اس سے پیسے لے لیے جاتے ہیں۔ اس کے بعد اس کے ساتھ ڈسکائونٹ طے کیا جاتا ہے کہ پی کمپنی اسے کیا ڈسکائونٹ دے گی۔ آیامذکورہ طریقہ کار کا شرعاًدرست  ہے ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ طریقہ کار شرعاً درست ہے۔

(١) لما في الهندیة (٣/١٧٣) طبع: دار صادر، بیروت

حط بعض الثمن صحيح ويلتحق بأصل العقد عندنا كالزيادة سواء بقي محلا للمقابلة وقت الحط أو لم يبق محلا كذا في المحيط. إذا وهب بعض الثمن عن المشتري قبل القبض أو أبرأه عن بعض الثمن فهو حط فإن كان البائع قد قبض الثمن ثم حط البعض أو وهب بأن قال وهبت منك بعض الثمن أو قال حططت بعض الثمن عنك صح ووجب على البائع رد مثل ذلك على المشتري.

(٢) وفي الدرالمختار (٧/٣٩٦،٣٩٨) طبع: دارالمعرفة بیروت

(و)صح (الحط منه) و لو بعد هلاک المبیع و قبض الثمن…(و) صح (الزیادة في المبیع) و لزم البائع دفعها(إن) في غیر سلم. زیلعی.

(٣) وفي درر الحکام (١/٢٤١) طبع: دار عالم الکتب بیروت

 (المادة: ٢٥٦) حط البائع مقدارا من الثمن المسمى بعد العقد صحيح ومعتبر مثلا لو بيع مال بمائة قرش ثم قال البائع بعد العقد حططت من الثمن عشرين قرشا كان للبائع أن يأخذ مقابل ذلك ثمانين قرشا ………………………………فقط والله تعالٰی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved