• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ناجائز  نفع کا مصرف

استفتاء

سٹاک اینڈ سنز کمپنی کے بارے میں آپ سے سوال (2988/2) کیا تھا جس کے بارے میں آپ نے جواب (333/21) مرحمت فرمایا کہ اس کمپنی میں سرمایہ کاری کر کے نفع لینا جائز نہیں ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ

1) جائز نہیں ہے  کا کیا مطلب ہے؟۔ کیا یہ سود یا حرام میں آتا ہے؟

2)  اس کمپنی میں سرمایہ کاری کرنا جائز نہیں ہے اور ان سے علیحدگی اختیار کرنی چاہیے ۔ تو جو نفع ہوا ہو اس کا کیا کیا جائے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1) مذکورہ کمپنی دو قسم کے کام کرتی ہے جس میں سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری، فاریکس ٹریڈنگ شامل ہے۔ جس کی بعض صورتوں میں سود بھی لازم آتا ہے اور بعض میں سود تو نہیں ہوتا لیکن دوسری ناجائز وجوہات کی بناء پر وہ معاملہ پھر بھی حرام ہوتا ہے۔ فاریکس ٹریڈنگ میں اگر کرنسی کی ادھار خرید و فروخت ہو تو   اس میں تو سود  ہوتا ہے  کیونکہ مجلس میں قبضہ بھی نہیں ہوتا جو کہ کرنسی کی خرید و فروخت میں شرط ہے۔نیز بقیہ اشیاء کی خرید و فروخت  میں بھی شرعی خرابیاں موجود ہیں جیسے کہ دین کی دین کے عوض بیع ہونا۔ اور سٹاک ایکسچینج  میں شیئرز میں سرمایہ کاری کی صورت میں سرمایہ کار  بھی سود میں ملوث ہوتا ہے اور کمپنی  سود پر قرضہ لیتی ہے اور سرمایہ کار  کے سرمایہ سے سود ادا کرتی ہے۔

2)  مذکورہ کمپنی میں سرمایہ کاری سے جو نفع ہوا ہے وہ مال حرام ہے۔ اس کو بغیر ثواب کی نیت کے صدقہ کر دیں۔

الفتاوى العالمگیریۃ، کتاب البیوع، الباب العشرون (طبع: مکتبہ رشیدیہ، جلد نمبر 5 صفحہ نمبر60) میں ہے:” من اشترى جارية بيعا فاسدا وتقابضا وباعها وربح يتصدق بالربح”الفتاوى العالمگیریۃ، کتاب البیوع، الباب العشرون (طبع: مکتبہ رشیدیہ، جلد نمبر 5 صفحہ نمبر62) میں ہے:"ووافق الإمام في البيع الفاسد فإنه يقول لو باع المبيعة بيعا فاسدا بعرض ثم باع ذلك العرض بفضل عما ضمن من قيمة المبيع بالبيع الفاسد أنه يتصدق بالفضل وجعل بيع الفاسد اشد من الغصب كذا في جواهر الأخلاطي”الفتاوى العالمگيریۃ، کتاب البیوع، الباب العشرون (طبع: مکتبہ رشیدیہ، جلد نمبر 5 صفحہ نمبر63) میں ہے:"رجل اشترى أمة بيعا فاسدا وقبضها فباعها ثم قضى عليه القاضي بالقيمة للبائع الأول فأداها إليه ورده البائع الأول من الثمن وفي الثمن الثاني فضل على القيمة التي أداها فإنه يتصدق بذلك الفضل في قول أبي حنيفة وأبي يوسف رحمهما الله تعالى وإنما طاب للمساكين على قياس اللقطة قال وهذا الربح لا يطيب لهذا المشتري وإن كان فقيرا لأنه يكتسبه بمعصية ويطيب للمساكين وهو أطيب لهم من اللقطة وإن لم يتصدق بالربح حتى عمل الثمن وربح ربحا وبيعت فيها بيوع كلها ربح قال يتصدق بالفضل في جميع ذلك”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved