• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

نماز عید کے لیے کتنے افراد کا ہونا ضروری ہے” اس بارے میں ایک فتوے کی تصدیق۔

استفتاء

(1) درج ذیل فتوی کےبارے میں رہنمائی فرمائیں کہ اس میں عیدین کی نماز میں مقتدیوں کی تعداد کی جو تفصیل مذکور ہے کیا اس بارے میں کوئی اور رائے بھی ہے؟

(2) اگر کوئی اور رائے بھی ہے تو جمہور کے نزدیک راجح کیا ہے؟

’’نماز  عید  کے صحیح ہونے کے لیے شرکاء کی تعداد

سوا ل:محتر م و مکرم متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ

عرض یہ ہے    کے آپ کے حالیہ فتویٰ  ”لاک ڈا ؤن میں نماز عید کا حکم “میں لکھا ہے:

نماز  جمعہ کی  ادائیگی کے لیے  امام کے علاوہ تین افراد کا ہونا ضرو ری  ہے، نماز  عید  میں  بھی بہتر ہے کہ امام کے علاوہ تین  افراد ہوں لیکن کسی  وجہ سے اس سے کم لوگ بھی  نما زعید  ادا   کریں  گے تو نماز ہوجائے  گی۔

عرض یہ ہے کہ احقر کی مختصر معلو مات کے مطا بق احناف کے نزدیک جو شرائط نماز جمعہ کے لیے ہیں وہی شرائط نماز عید کے لیے بھی ہیں سوائے خطبہ کے جیسا کے صاحبِ بدائع الصنائع نے بھی لکھا ہے۔ نماز جمعہ کی صحت کے لیے اما م کے علاوہ تین افراد کا موجود ہونا ضروری ہے۔ تو سوا ل یہ ہے کہ کیا اما م کے علاوہ تین افراد کا موجود ہونا نماز عید کی صحت کے لیے شرط نہیں ہے؟

جواب:

صحیح بات یہی ہےکہ نماز عید کے صحیح ہونے کے لیے محض جماعت کا ہونا کافی ہے، نماز جمعہ کی طرح امام کے علاو ہ تین بالغ افراد کا موجود ہونا ضروری نہیں، ا س لیے ا گر ا مام کے علاو ہ ایک فرد بھی ہو تو نماز عید کی صحت کے لیے کافی ہے۔ فقہائے کرام نے جہاں جمعہ ا ورعیدین کی شرائط صحت میں جماعت کو مشترک طور پر ذ کرکیا ہے وہاں جما عت سے ”نفس جماعت“ میں ایک جیسا ہونا مراد ہے ،کیفیت جماعت میں ایک جیسے ہونا مرادنہیں۔

اس لیے جمعہ کے لیے  ”جماعت “کے شرط ہونے سے مراد امام کے علاو ہ تین افراد کا ہونا ہےا ور عیدین کے لیے  ”جماعت “کے شرط ہونے سے مراد  ” نفس جماعت“ ہے یعنی ا مام کے علاو ہ ایک فرد بھی ہو تو عید کی نماز کی صحت کے لیے کافی ہے۔ چند تصریحات ملاحظہ ہوں:

1۔شیخ علامہ حسن بن عمار بن علی الشر نبلالی الحنفی )ت1069ھ( عید کی شرائط بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

فتجب(علی من تجب علیه الجمعة بشرائطها…. سوی الخطبة)لانها لما اخرت عن الصلاة

لم تکن شرطا لها بل سنة.                                          (مراقی الفلاح مع الطحطاوی: ص528)

ترجمہ: عید کی نماز ہر ا س شخص پر وا جب ہے جس پر جمعہ واجب ہے، اس کی شرائط بھی وہی ہیں جو جمعہ کی ہیں سوائے خطبہ کے، کیونکہ عید میں خطبہ؛ نماز کے بعد ہوتا ہے اس لیے خطبہ عید کی صحت کے لئے شرط نہیں ہوگا بلکہ سنت ہو گا۔

اس کی شرح میں علامہ احمد بن محمد    بن اسماعیل الطحطاوی الحنفی (ت1231ھ)لکھتے ہیں:

قوله ) وشرائط الصحة(ظاهره أنه لابد من الجماعة المذكورة في الجمعة… وليس كذلك فان الواحد هنا مع الامام جماعة فیكف يصح أن يقال بشرائطها.

(حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح: 528)

ترجمہ: بظاہر اس عبارت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس نوعیت کی جماعت جمعہ میں ضرو ر ی ہے ا سی نوعیت کی جماعت عید میں بھی ضرو ر ی ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے کیو نکہ نماز عید میں ا مام کے ساتھ ایک آدمی مزید ہوجائے تو بس یہ عیدکی جماعت (کےلیےکافی) ہے۔ اس لیے یہ کہنا کیسے درست ہو سکتا ہے کہ عید کی شرائط بھی وہی ہیں جو جمعہ کی ہیں؟

اس سے معلوم ہوا کہ نماز  عید میں جمعہ والی جماعت کی شرط لگا نا درست نہیں بلکہ درست بات یہی ہےکہ نماز عید میں اگر امام کے علاو ہ ایک آد می بھی ہو تب بھی یہ ” الجماعة“ ہے ا ور اس طرح عید کی نماز پڑھنا درست ہے۔

2۔علامہ محمد امین ابن عابدین الشامی الحنفی )ت 1252ھ)  علامہ طحطاو ی رحمہ اللہ کے اٹھائے گئے اشکال کا جواب دیتے ہوئے رقمطرا زہیں:

بَقَي أنَ يُقَالَ منْ شَرَا ئطهاالجماعة االتي هي جَمْعٌ وَالْوَاحد هُنَا مَعَ الْامَا م جَماَعَة فَكَیْفَ يصح أ ن يُقَالَ:  انَ شُرُوطه شُرُوطُ الجمعةاھ۔والجواب:أنَ الْمُرَادَ الاشتراک في اشتراط الجماعة فيهمالا من کل وجه.

(منحۃ الخالق علی البحر الرائق: ج2 ص290)

ترجمہ: باقی رہا یہ کہنا کہ ”نماز  عید کی شرائط میں سے ایک شرط جماعت کا ہونا ہے جو کہ جمع ہونی چاہیے ا ور عید میں امام کے ساتھ ایک فر د بھی ہو تو یہ جماعت ہے، اس لیے یہ کہنا کیسے درست ہے کہ جو شرائط جمعہ کی ہیں وہی عیدین کی ہیں؟ “ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جمعہ ا ور عید  میں جماعت کے شرط ہونے سے مراد یہ ہے کہ دونوں میں” نفس جماعت“ شرط ہے، ہر جہت سے جماعت کا ایک جیسا ہونا مراد نہیں ہے۔

علامہ شا میؒ نے بھی ا مام کے علاو ہ ایک فرد کے ساتھ عید پڑھنے کو صحیح قرا ر دیا ہے ا ور علامہ طحطاو ی ؒکے اشکال کا جواب یہ دیا کہ جمعہ ا ور عیدین میں جماعت کا ہونا مشترک ہے ا ور یہ اشترا ک من کل الوجوہ نہیں بلکہ ”اشترا ک فی الجملہ“ ہے۔ گویا جمعہ کی جماعت امام کے علاو ہ تین افراد پر مشتمل ہونا شرط ہے ا ور  عید  ین کی  جماعت اما م کے علاو ہ ایک فرد کے ساتھ بھی اداکرلی جائے تو کفایت کرجائے گی۔

3:علامہ شیخ عبد الرحمٰن بن محمد بن عوض الجزیری (ت1360ھ ) عید کے متعلق حنفیہ کا موقف یوں بیان کرتے ہیں:

الحنفیة قالوا: صلاة العیدين واجبة في الاصح علی من تجب علیه الجمعة بشرائطها سواء كانت شرائط وجوب أو شرائط صحةالا أنه يستثنى من شرائط الصحةالخطبةفانهاتكون قبل الصلاةفي الجمعة وبعدها في العید ويستثنى أيضا عدد الجماعةفان الجماعةفي صلاةالعیدتتحقق بواحدمع امام بخلاف الجمعة.

(الفقہ علی المذاهب الاربعۃ: ج1 ص313)

ترجمہ: احناف کا موقف یہ ہے کہ عید کی نماز ہر اس شخص پر واجب ہے جس پر جمعہ واجب ہے،جو شرائط وجوب یا شرائط صحت جمعہ کی ہیں وہی عید کی ہیں البتہ نماز صحیح ہونے کی شرائط میں سے خطبہ کی شرط مستثنیٰ ہے، کیو نکہ جمعہ میں خطبہ نماز سے پہلے ہوتا ہے ا ور عید میں نماز کے بعد ہوتا ہے۔ ا سی طرح جماعت میں افر اد کی تعداد کی شرط بھی مستثنیٰ ہے کیونکہ نماز عید میں امام کے علاو ہ  ایک فرد بھی ہو تب بھی جماعت  کی شرط پو ر ی ہو جاتی ہے لیکن جمعہ  میں ایسا نہیں (کیونکہ جمعہ میں اما م کے علاو ہ تین افر اد کا ہونا لاز م ہے)۔

4۔ دا ر الافتاء دا ر العلوم دیوبند سے ایک فتویٰ  (نمبر: 557/د 1438ھ)شائع ہوا ،اس میں ایک سوا ل کے جواب میں لکھا ہے:

سوا ل: عیدکی نماز کے لیے اگر کل د و ہی آد می ہوں تو کیا عید کی نماز صحیح ہو گی؟

جواب:   جی ہاں صحیح ہو جائے گی کیونکہ عبارا ت  فقہ سے معلو م ہوتا ہے کہ جماعت کی اقل مقدا ر؛امام اورایک مقتد  ی د وافراد ہیں، البتہ جمعہ کی نماز میں مجمع شرط ہے،اس لیے امام کے علاو ہ تین افرا د ا و رہونا ضرو ری ہیں۔

5۔مولانا محمد رفعت قاسمی  صاحب لکھتے ہیں:

”شریک جماعت لوگوں کی تعداد میں بھی نماز  عیدین مستثنیٰ ہیں کہ نماز  عید کی جماعت تو ایک آد می کے شریک ہونے سے بھی ہو جاتی ہے لیکن جمعہ کی نماز میں ایسا نہیں ہے ۔“

(مسائل عید وقربانی: ص73)

6- جامعۃ العلو م الاسلامیہ علامہ محمد یوسف بنور ی ٹاؤن کراچی کے فتویٰ  (8907) میں ہے:

”واضح رہے کہ عیدین کی جماعت میں جمعہ کی نماز کی طرح تین آدمیوں کا ہونا ضرو ر ی نہیں بلکہ امام کےعلاو ہ صرف ایک شخص بھی ہو  توبھی عیدین کی جماعت درست ہو جاتی ہے۔“

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1-2) عیدین کی نماز میں مقتدیوں کی تعداد کے بارے میں جو تفصیل مذکور ہے ہماری معلومات کی حدتک اس میں کوئی دوسری رائے نہیں البتہ مولانا عبدالحی صاحبؒ نے مجموعۃ الفتاوی میں ذکر کیا ہے کہ عید کی نماز کے لیے بھی امام کے علاوہ تین مقتدیوں کا ہونا ضروری ہے،لیکن انہوں نے اس کا کوئی حوالہ ذکر نہیں کیاممکن ہے کہ انہوں نےعمومی حوالوں کے پیش نظر مذکورہ بات کہی ہو تاہم اگر یہ رائے درست بھی ہو تو جمہور کے نزدیک راجح نہیں جمہور کے نزدیک راجح وہی ہے جو مذکورہ فتوے میں مذکور ہے۔

النهرالفائق(1/373)میں ہے:

من شرائطها الجماعة التي هي جمع والواحد هنا مع الامام جماعة،فكيف يصح ان يقال:إن شروطه شروط الجمعة.

فتاوی شامی(3/51) میں ہے:

(تجب صلاتهما) في الأصح (على من تجب عليه الجمعة بشرائطها) المتقدمة (سوى الخطبة) فإنها سنة بعدها،قوله:(بشرائطها)…..لكن اعترض ط ما ذكره المصنف بأن الجمعة من شرائطها الجماعة التي هي جمع والواحد هنا مع الإمام جماعة، كما في النهر۔

البحر الرائق (2/290)میں ہے:

من شرائطها الجماعة التي هي جمع والواحد هنا مع الامام جماعة فكيف يصح ان يقال إن شروطه شروط الجمعة؟والجواب ان المراد الاشتراك في اشتراط الجماعة فيهما لامن كل وجه.

حاشيہ الطحطاوی علی الدرالمختار(3/5)میں ہے:

من شرائطها الجماعة التي هي جمع والواحد هنا مع الامام جماعة۔

مجموعۃ الفتاویٰ لمولانا عبدالحی اللکنویؒ (1/323)میں ہے:

عیدین کی جماعت میں امام کے علاوہ کم سے کم تین آدمی کا ہونا ضروری ہے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved