• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

نامرد شوہر سے خلاصی کا طریقہ

استفتاء

میں نے اپنی بیٹی *** کی شادی ***سے کی۔ رخصتی سے پہلے میرے بھتیجے نے نہیں بتایا، کہ میں بیمار ہوں۔ نہ مجھے نہ اپنے گھر والوں کو، سب کو دھوکہ دیا۔ شادی کے دوسرے دن پتہ چلا کہ  بیمار ہے اور حق زوجیت ادا کرنے کے قابل نہیں ہے یعنی عنین ( نامرد ہے )۔ اس سے پوچھا گیا کہ شادی سے پہلے آپ نے اپنی بیماری کے بارے میں کیوں نہیں بتایا؟ تو اس نے معذرت کی اور بہانہ بنایا کہ اگر میں اپنی کمزوری پہلے ظاہر کر دیتا تو آپ نے شادی نہیں کرنی تھی۔ پھر اس کو ایک سال کی مہلت دی گئی کہ تم اپنا علاج کراؤ۔ لیکن اس نے  پس و پیش سے کام لیا اور علاج نہیں کرایا، بہانہ یہ بتایا کہ میرا خرچہ  پورا نہیں ہوتا، تم اپنے گھر چلی جاؤ۔ آخر کار میری بیٹی اپنے خاوند کی رضامندی سے اپنے والد کے گھر آگئی، اس نے میری بیٹی سے رابطہ بھی ختم کردیا اور نہ آنے کی زحمت گوارا کی۔ میں بھی کافی اس کو سمجھانے کی کوشش کی۔ اس طرح ایک سال گذر گیا۔ ابھی میری بیٹی مجھے بھی ملامت کرتی ہے کہ آپ نے ایسے آدمی سے میری شادی کیوں کی۔ اور اس نے طلاق کا مطالبہ کردیا۔ میں نے اس کے خاوند سے بات کی کہ تم میری بیٹی کو طلاق دے دو تاکہ میں اس کی شادی دوسری جگہ کردوں۔ لیکن وہ اس کو نہ تو فارغ کرتا ہے نہ اپنے پاس رکھتا ہے۔

ابھی آپ اس مسئلہ میں میری رہنمائی شریعت کے مطابق کریں کہ کیا جائے؟ ( خاوند *** میں ہے ملازمت کرتا ہے،  بیوی والدین کے پاس*** میں ہے۔)

نوٹ: میں نے اس کے والد کے ذریعے اور برادری کے جو بڑے ہیں ان کے ذریعے ہر قسم کا دباؤ بھی ڈلوایاہے کہ یہ لڑکی کو فارغ کر دے۔ لیکن اس نے کسی قیمت پر طلاق دینے سے انکا ر کردیا ہے۔ ان کا اس بات پر اکثر جھگڑا رہتا تھا۔ ہم کوشش کرکے صلح کراتے رہے۔ ابھی اس کی بیوی کسی قیمت پر اس کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی۔ اور وہ کسی قیمت پر طلاق دینے پر راضی نہیں ہے۔ اس کی  آپس میں شدت نفرت میں بدل گئی ہے۔

اگر آپ کہیں گے تو لڑکی کی والدہ ، لڑکی کا بھائی ، لڑکی کا باپ ا ور دیگر گھر کے افراد اس بات کے گواہ ہیں کہ اس کے اندر عنین ( نامرد ) کی بیماری ہے۔ میاں بیوی کا مکالمہ فون میں ریکارڈ ہے جوکہ ہمارے پاس موجود ہے، اس نے اس بات کا اعتراف کیا ہے۔ جب میرا بھائی فوت ہوا ہے۔ بیوی اس کے ساتھ۔۔۔۔رہی ہے۔ ایک سال کے بعد لیکن وہ بدستور اس طرح  تھا جیسے پہلے تھا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں شوہر طلاق نہیں دیتا تو کسی مسلمان جج کی عدالت سے تفریق کا فیصلہ کروائیں۔ اگر شوہر یا اس کا وکیل عدالت میں حاضر ہو تو پوچھ گچھ اور لیڈی ڈاکٹر سے عورت کے معائنہ کی رپورٹ حاصل کر کے مرد کو ایک سال کی مہلت ملے گی کہ وہ اپنا علاج کرائے۔ اگر ٹھیک ہو جائے تو فبہا، ورنہ جج تفریق کر دے۔ اگر شوہر عدالت میں حاضر نہ ہو تو جج پہلے ہی تفریق کر سکتا ہے۔ اگر عدالت میں جانے کا فیصلہ کریں اس بارے میں مزید معلومات ہمارے دارالافتاء سے حاصل سکتے ہیں۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved