- فتوی نمبر: 4-19
- تاریخ: 27 اپریل 2011
- عنوانات: عبادات > روزہ و رمضان > روزہ کے فدیہ کا بیان
استفتاء
اور دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ والد صاحب کی نمازوں اور روزوں کی جو قضا ہیں ان کا فدیہ کس حساب سے نکالنا ہوگا؟ اور کیا اس کی فوری ادائیگی کرنی ہوگی یا ہم ٹھہر کر ادائیگی کر سکتے ہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
آپ کے والد کے جو روزے اور نمازیں قضا ہوئیں، اگر انہوں نے وفات سے پہلے وصیت کی تھی کہ ان روزوں اور نمازوں کا فدیہ ادا کر دینا تب تو کفن دفن اور قرض ادا کرنے کے بعد اگر تہائی مال میں سے یہ فدیہ ادا ہوتا ہو تو ورثاء پر اس کی ادائیگی واجب ہے۔
اور اگر قضا شدہ روزوں اور نمازوں کا فدیہ تہائی مال سے ادا نہ ہو یا آپ کے والد نے فدیہ ادا کرنے کی وصیت نہیں کی تو پہلی صورت میں تہائی مال سے زائد سے اور دوسری صورت میں کل ترکہ سے فدیہ ادا کرنا ورثاء کی رضامندی کے بغیر جائز نہیں۔ ہاں اگر تمام وارث بخوشی راضی ہوجائیں تو دونوں صورتوں میں ان کے ترکہ سے فدیہ کا ادا کرنا درست ہے۔ البتہ نابالغ کی اجازت کا کوئی اعتبار نہیں اس لیے اگر ورثاء میں کوئی نابالغ بچہ ہو تو اس کے حصہ سے فدیہ ادا نہ کیا جائے بلکہ بالغ وارث اپنا حصہ جدا کر کے فدیہ ادا کریں۔ ہر قضا شدہ روزے اور نماز کا فدیہ صدقہ فطر کی مقدار کے برابر ہے یعنی ہر روزے یا ہر نماز کے بدلے کسی مسکین کو دو وقت کا کھانا کھلانا یا تقریباً دو کلو گندم اس کو دینا۔ اس لحاظ سے ایک دن رات کی نمازوں کا فدیہ وتر کو شامل کر کے ساڑھے دس کلو یا اس کی قیمت ہوا۔
( و فدى ) لزوماً ( عنه وليه ) الذي يتصرف في ماله ( كالفطرة ) قدراً (بعد قدرته ) أي على قضاء الصوم ( و فوته ) أي فوت القضاء بالموت ( بوصية من الثلث ) ( و إن ) لم يوص و (تبرع وليه به جاز ).تنوير الابصار: 3/ 467) و في الرد تحت قوله من الثلث: أي ثلث ماله بعد تجهيزه و إيفاء ديون العباد فلو زادت الفدية على الثلث لا يجب الزائدإلا بإجازة الوارث . ( و فدية كل صلاة و لو وتراً كصوم يوم ) على المذهب. شامى: 3/ 471
© Copyright 2024, All Rights Reserved