- فتوی نمبر: 30-145
- تاریخ: 23 جون 2023
- عنوانات: عبادات > متفرقات عبادات
استفتاء
سوال یہ ہے کہ فوائد صفدریہ (***) میں لکھا ہے کہ فرض نماز کے بعد بلند آواز سے اللہ اکبر کہنا معتزلہ کی ایجاد ہے ۔ کیا یہ بات درست ہے ؟ تسلی بخش جواب مرحمت فرما کر میرے اس تذبذب کو دور فرمائیں ۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
نماز کے بعد قدرے بلند آواز سے اپنے اپنے طور پر ایک مرتبہ اللہ اکبرکہنا احادیث سے ثابت ہے اور اسے معتزلہ کی ایجا دکہنا درست نہیں اور نہ ہی مولانا *** صاحب ؒ نے اسے معتزلہ کی ایجاد کہا ہے ۔ مولانا نے جسے معتزلہ کی ایجاد کہا ہے وہ یہ ہے کہ لوگ اجتماعی طور پر کھڑے ہو کر تین مرتبہ بآواز بلند اللہ اکبر کہیں جیسا کہ مولانا کی دوسری کتاب اخفاء الذکر میں ہے :
وفيها كتب المأمون إلى إسحاق بن إبراهيم نائب بغداد وما والاها من البلاد، يأمره أن يأمر الناس بالتكبير عقيب الصلوات الخمس فكان أول ما بدئ به في جامع المدينة والرصافة يوم الجمعة لأربع عشرة ليلة خلت من رمضان، أنهم لما قضوا الصلاة قام الناس قياما فكبروا ثلاث تكبيرات، ثم استمروا على ذلك في بقية الصلوات، وهذه بدعة أحدثها المأمون بلا مستند ولا دليل ولا معتمد فإن هذا لم يفعله قبله أحد ولكن ثبت في ” ” الصحيح ” ” عن ابن عباس أن رفع الصوت بالذكر كان على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم حين ينصرف الناس من المكتوبة. وقد استحب هذا طائفة من العلماء كابن حزم وغيره. وقال ابن بطال: المذاهب الأربعة وغيرهم على عدم استحبابه. قال النووي: وقد روي عن الشافعي أنه قال: إنما كان ذلك ليعلم الناس أن الذكر بعد الصلوات مشروع، فلما علم ذلك لم يبق للجهر معنى. وهذا كما روي عن ابن عباس أنه كان يجهر بالفاتحة في صلاة الجنازة ليعلم الناس أنها سنة، ولهذا نظائر، والله أعلم وأما هذه البدعة التي أمر بها المأمون؛ فإنها بدعة محدثة لم يعمل بها أحد من السلف۔
مامون الرشید نے اسحاق بن ابراہیم کو جو بغداد کا نائب تھا خط لکھا اوریہ حکم دیا کہ وہ لوگوں کو پانچوں نمازوں کے بعد تکبیر کہنے کا حکم دے اور سب سے پہلے یہ کاروائی جمعہ کے دن جب کہ رمضان المبارک کی چودہ راتیں گذر چکی تھیں شروع ہوئی اور یہ کاروائی یوں ہوتی کہ جب وہ نماز پوری کر لیتے تو سیدھے کھڑے ہو جاتے( جیسا کہ آجکل اہل بدعت درود شریف پڑھنے کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ صفدر) پھر تین بار تکبیر کہتے اور پھر یہ کاروائی باقی نمازوں میں بھی مستمر رہتی اور یہ کا روائی بدعت ہے اور مامون نے بلا کسی مستند دلیل اور قابلِ اعتماد حجت کے یہ بدعت بھی گھڑی ہے۔ اور یہ کاروائی اس سے پہلے کسی نے نہیں کی۔ لیکن صحیح بخاری میں حضرت ابن عباس سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے عہد میں بلند آواز کے ساتھ جب کہ آپ فرض نماز سے فارغ ہوجاتے تعلیم کی خاطر ذکر کیا جاتا تھا اور اس کو علماء کے ایک طائفہ نے مثلا ابن حزم وغیرہ نے مستحب سمجھا ہے اور ابن بطال فرماتے ہیں کہ مذاہب اربعہ اس کے عدم ِاستحباب کے قائل ہیں۔ امام نووی ؒفرماتے ہیں کہ امام شافعیؒ سے روایت کیا گیا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ یہ صرف اس لئے تھا کہ لوگوں کو بتایا جائے کہ نمازوں کے بعد ذکر مشروع ہے ،جب اس کا علم ہو گیا توجہر کا کوئی مطلب ہی نہ رہا اور یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ وہ نمازجنازہ میں جہر سے سورۃ فاتحہ پڑھتے تھے تاکہ لوگ جان لیں کہ یہ بھی ایک طریقہ ہے اور اس کے کئی نظائر ہیں اور اللہ تعالی بہتر جانتا ہے بہر حال یہ کا روائی جس کے بارے میں مامون نے حکم دیا ہے یہ تراشید بدعت ہے سلف میں سے کسی ایک نے اس پر عمل نہیں کیا۔(اخفاء الذکر از مولانا سرفراز خان صفدر ؒ ص 29)
بخاری شریف (1/806) میں ہے :
عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: كنت أعرف انقضاء صلاة النبي صلى الله عليه وسلم بالتكبير
لمعات التنقیح (3/91) میں ہے :
“وقيل كانوا يقولون الله أكبر مرة اور ثلاثا بعد الصلاة”
التقرير الرفيع لشیخ محمد ز کریا ( 140/2) میں ہے:
” ثم المراد : التكبير بعد الصلاة مرة ، وكانوا يقولون”
حاشیہ نسائی شریف (1/196) میں ہے:
وقيل: كانوا يقولون الله اكبر مرة أو ثلاثا بعد الصلاة”
مظاہر حق شرح مشکوۃ المصابیح (ص 620) میں ہے:
کچھ محققین کی رائے یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں نماز کے بعد ایک بار یا تین بار تکبیر کہی جاتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved