- فتوی نمبر: 34-79
- تاریخ: 16 اکتوبر 2025
- عنوانات: عبادات > متفرقات عبادات
استفتاء
1۔یہاں امامت کروانے والے کندھوں تک مکمل ہاتھ نہیں اٹھاتے، بلکہ سینے یا سینے سے بھی نیچے ہی ہاتھ ہوتے ہیں کیا ایسا کرنا بہتر ہے اور نماز ہو جائے گئی؟
2۔نماز پڑھتے ہوئے ہاتھ سینے پر جب باندھے جاتے ہیں تویہاں یہ لوگ اگر جسم پر کسی جگہ خارش ہوئی تو ہاتھ مکمل کھول دیتے ہیں مطلب اگر 1 ہاتھ سے خارش کر لی جائے تو سمجھ لگتی ہے، یہ دونوں ہاتھ کھول لیتے ہیں ، کیا اس فعل سے نماز ہو جائے گی؟
3۔اگر امامت کروانے والا قراءت کر رہا ہے، اور ابھی سورت کی آیات باقی ہیں، یہ لوگ قراءت ختم کرنے سے پہلے ہی ہاتھ کھول لیتے ہیں، کیا یہ فعل ٹھیک ہے؟
4۔میں نے بہت مرتبہ تجربہ کیا ہے کہ یہ یہاں عربی لوگ، سعودی، مصری یمنی، میں نے نہیں کبھی دیکھا کہ یہ لوگ وضو ٹھیک کرتے ہوں ، کیا ایسی صورت میں اگر وضو کرتے ہوئے بازو، مسح کرنے کا طریقہ، یا پاؤں کا کچھ حصہ سوکھا رہ گیا ہے تو نماز ہو جائے گی؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ فقہ حنفی کی رو سے تو ایسا کرنا بہتر نہیں باقی دوسری فقہوں کی تفصیل ہمیں معلوم نہیں تا ہم نماز ہو جائے گی ۔
2۔مذکورہ صورت میں بھی نماز ہو جائے گی ۔
3۔یہ فعل تو ٹھیک نہیں ہے تا ہم نماز ہو جائے گی ۔
4۔فقہ حنفی کی رو سے وضو میں چار فرض ہیں( ایک مرتبہ سارا منہ دھونا، ایک کان کی لو سے دوسرے کان کی لو تک، ایک ایک دفعہ کہنیوں سمیت دونوں ہاتھ دھونا، ایک مرتبہ چوتھائی سر کا مسح کرنا،ایک ایک مرتبہ ٹخنوں سمیت دونوں پاؤں دھونا) جس امام کا ان چار فرضوں میں سے اگر کوئی فرض رہ گیا تو ایسے امام کے پیچھے حنفی کی نماز نہ ہوگی۔
المعجم الکبیر للطبرانی (رقم الحدیث: 17497) میں ہے:
عن وائل بن حجر قال: جئت النبي صلى الله عليه وسلم فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم يا وائل بن حجر، إذا صليت فاجعل يديك حذاء أذنيك، والمرأة تجعل يديها حذاء ثدييها
ترجمہ: حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: اے وائل بن حجر! جب تم نماز پڑھو تو اپنے دونوں ہاتھ کانوں کے برابر اٹھاؤ، اور عورت اپنے دونوں ہاتھ سینے (یعنی چھاتی) کے برابر اٹھائے۔
شامی (1/482) میں ہے:
(ورفع يديه) قبل التكبير، وقيل معه (ماسا بإبهاميه شحمتي أذنيه) هو المراد بالمحاذاة لأنها لا تتيقن إلا بذلك .
(قوله هو المراد بالمحاذاة) أي الواقعة في كتب ظاهر الرواية وبعض روايات الأحاديث كما بسطه في الحلية، ووفق بينها وبين روايات الرفع إلى المنكبين، بأن الثاني إذا كانت اليدان في الثياب للبرد كما قاله الطحاوي أخذا من بعض الروايات، وتبعه صاحب الهداية وغيره، واعتمد ابن الهمام التوفيق بأنه عند محاذاة اليدين للمنكبين من الرسغ تحصل المحاذاة للأذنين بالإبهامين، وهو صريح رواية أبي داود
مصنف ابن ابی شیبہ (رقم الحدیث:3971) میں ہے:
حدثنا يزيد بن إبراهيم قال: سمعت عمرو بن دينار قال: «كان ابن الزبير، إذا صلى يرسل يديه»
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ جب نماز پڑھتے تو اپنے دونوں ہاتھ چھوڑ دیتے۔
البحر الرائق (2/12) میں ہے:
اختلفوا فيما يعين الكثرة والقلة على أقوال أحدها ما اختاره العامة كما في الخلاصة والخانية أن كل عمل لا يشك الناظر أنه ليس في الصلاة فهو كثير وكل عمل يشتبه على الناظر أن عامله في الصلاة فهو قليل
حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح (ص:280) میں ہے:
“ثم وضع يمينه على يساره” وتقدم صفته “تحت سرته عقب التحريمة بلا مهلة” لأنه سنة القيام في ظاهر المذهب. وعند محمد سنة القراءة فيرسل حال الثناء وعندهما يعتمد في كل قيام فيه ذكر مسنون كحالة الثناء والقنوت وصلاة الجنازة ويرسل بين تكبيرات العيدين إذ ليس فيه ذكر مسنون
ہندیہ (1/4) میں ہے:
في فتاوى ما وراء النهر إن بقي من موضع الوضوء قدر رأس إبرة أو لزق بأصل ظفره طين يابس أو رطب لم يجز
الفقہ الاسلامی وادلتہ (1/377) ميں ہے:
أن أركان الوضوء المتفق عليها أربعة: غسل الوجه واليدين والرجلين مرة واحدة، والمسح بالرأس مرة واحدة
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved