استفتاء
(1)۔مسائل بیان کرتے ہوئے یہ کہا جاتا ہے کہ” نماز میں دونوں ہاتھوں سے کوئی کام کرنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے مثلادونوں ہاتھوں سے قمیص آگے یا پیچھے کرنا” حالانکہ بڑے بڑے علماء اس میں احتیاط نہیں کرتے۔
(2)۔کوئی بندہ کسی وجہ سے ایک نماز میں ہمیشہ کوئی مخصوص سورتیں اس ترتیب سے پڑھتا ہے مثلاً پہلی رکعت میں “اذا جاء نصرالله “دوسر ی رکعت میں “تبت يدا ابي لهب “تیسری رکعت میں “قل هوالله احد” مگر کبھی کسی دن کسی رکعت میں وہ ترتیب بھول جائے اور کوئی دوسری سورت مثلا “الم نشرح یا قل یآ ايهاا الکافرون” شروع کرتا ہے پھر یاد آنے پر وہ اپنی ترتیب سے پڑھتا ہے۔تو کیا ایسا کرنا درست ہے یا نہیں ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
(1)۔ نماز کی حالت میں وه كام کرنا جو عام طور پر دونوں ہاتھوں سے کیا جاتا ہےجیسے عمامہ باندھنا ،تہہ بند باندھنا ا س سے نماز ٹوٹ جاتی ہے لیکن کپڑوں کو آگےیا پیچھے سے درست کرنے سے نماز نہیں ٹوٹتی کیونکہ کپڑے درست کرنے کا عمل دونوں ہاتھوں سے نہیں کیا جاتاتاہم دونوں ہاتھوں سے کپڑےدرست کرنے سے نماز مکروہ ہوجاتی ہے ۔
(2)۔ کسی نماز میں کوئی سورت مقرر کرناکہ ہمیشہ وہی پڑھا کرے اس کے علاوہ کوئی سورت کبھی نہ پڑھے یہ بات مکروہ ہے ۔اور نماز میں ایک سورت شروع کر کے بلاوجہ اس کو چھوڑ کر دوسری سورت شروع کرنا بھی مکروہ ہے ۔
فتاوی عالمگیری (1/217) میں ہے:
“النوع الثاني في الأفعال المفسدة للصلاة العمل الكثير يفسد الصلاة والقليل لا كذا في محيط السرخسي واختلفوا في الفاصل بينهما على ثلاثة أقوال الأول أن ما يقام باليدين عادة كثير وإن فعله بيد واحدة كالتعمم ولبس القميص وشد السراويل والرمي عن القوس وما يقام بيد واحدة قليل وإن فعل بيدين كنزع القميص وحل السراويل ولبس القلنسوة ونزعها ونزع اللجام هكذا في التبيين وكل ما يقام بيد واحدة فهو يسير ما لم يتكرر كذا في فتاوى قاضي خان والثاني أن يفوض إلى رأي المبتلى به وهو المصلي فإن استكثره كان كثيرا وإن استقله كان قليلا وهذا أقرب الأقوال إلى رأي أبي حنيفة رحمه الله تعالى والثالث أنه لو نظر إليه ناظر من بعيد إن كان لا يشك أنه في غير الصلاة فهو كثير مفسد وإن شك فليس بمفسد وهذا هو الأصح هكذا في التبيين وهو أحسن كذا في محيط السرخسي وهو اختيار العامة كذا في فتاوى قاضي خان والخلاصة”
فتاوی عالمگیری (1/228) میں ہے:
“الفصل الثاني فيما يكره في الصلاة وما لا يكره يكره للمصلي أن يعبث بثوبه أو لحيته أو جسده وأن يكف ثوبه بأن يرفع ثوبه من بين يديه أو من خلفه إذا أراد السجود كذا في معراج الدراية”
خیر الفتاوی (2/420) میں ہے:
“سوال : نماز پڑھنے ولا شخص قومہ کے دوران سجدہ میں جا نے سے پہلے دونوں ہاتھوں سے اپنا پیچھے والا دامن درست کرتا ہے اور عادتا ً ایسا کرتا رہتا ہے توکیا اس شخص کی نماز فاسد ہے یا نہیں ؟
الجواب:اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی البتہ یہ فعل عبث ہے اس سے بچا جائے۔”
مسائل بہشتی زیور (1/196) میں ہے:
“کسی نماز میں کوئی سورت مقرر کرلینا کہ ہمیشہ وہی پڑھا کر ےاس کے علاوہ کوئی سورت کبھی نہ پڑھے یہ بات مکروہ ہے” ۔
مسائل بہشتی زیور (1/168) میں ہے:
“جب سورت شروع کردے تو بلاضرورت اس کو چھوڑ کر دوسری سورت شروع کرنا مکروہ ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved