استفتاء
اگر کوئی امام سورت فاتحہ میں "عليهم”میں لفظ ” ھا”پر زیر کے بجائے پیش پڑھ دے تو کیا اس طرح پڑھنا صحیح ہے؟اسی طرح لفظ”مالک” کو "ملک "پڑھنے کا کیاحکم ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
یہ دونوں اعراب دوسری قراءت میں موجود ہیں ، اس لئے نماز پر اثر نہیں پڑےگا۔ تاہم امام صاحب کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ جما عت کی نماز میں ایسی قراء ت نہ کرے جو عوام میں معروف نہ ہو تا کہ عوام کوتشویش نہ ہو
تفسیر بیضاوی (/30 )میں ہے :
"مالك يوم الدين” قراءت عاصم ويعقوب والكسائي (رحمهم الله) وقرأ الباقون "ملك "
الدر المنثور(1/42) میں ہے:
وأخرج ابن الأنباري عن ابن اسحق أنه قرأ ! < عليهم > ! بضم الهاء والميم من غير إلحاق واو
التفسیر السراج المنیر للشمس الدین محمد بن احمدالشافعی متوفی 977ھ (1/18) میں ہے:
"غير المغضوب عليهم "بضمّ الهاء وفقاً ووصلاً ، وكذا جميع ما في القرآن ، وقرأ ابن كثير "عليهم "بواو بعد الميم في الوصل فإذا وقف أسقط الواو
مسلم شریف (1/ 8 )باب النہی عن الحدیث بکل ما سمعہ) میں ہے :
عبد الله بن مسعود ، قال : ما أنت بمحدث قوما حديثا لا تبلغه عقولهم إلا كان لبعضهم فتنة
امداد الفتاوی(1/452) میں ہے:
جس عمل سے عوام وجہلاء میں مفسدہ و فتنہ اعتقادیہ یا عملیہ قالیہ یاحالیہ پیدہ ہو اس کا ترک خواص پر واجب ہے ۔باقی فتنہ کا حدوث یاعدم حدوث یہ مشاہدہ سے معلوم ہوگا۔
احسن الفتاوی (3/81) میں ہے:
عوام میں غیرمعروف طریقہ سے قرآن پڑھنے میں انتشار اور بدگمانی پیدا ہوتی ہے اس لیے جائز نہیں ہے ۔
خیر الفتاوی (2/314) میں ہے :
مشہور روایت یعنی حفص عن عاصمؒ کے علاوہ دیگر روایت کے پڑھنے سے عوام و جہلاء میں کسی قسم فتنہ کا اندیشہ ہو تو ان کو نہ پڑھا جائے۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved