استفتاء
ایک شخص کو نماز کے اندر وسوسہ آیا اور اس نے وسوسہ دور کرنے کے لیے ” استغفر الله” کا لفظ کہا تو اس کہنے سے اس کی نماز فاسد ہو جائے گی یا فاسد نہ ہو گی،یا اس میں کچھ تفصیل ہے کہ وسوسے کا تعلق دینی امر سے ہو تو نماز فاسد نہ ہو گی، اور اگر دنیوی امر سے ہو تو نماز فاسد ہو جائے گی؟ بینوا توجروا
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
اس بارے میں عربی اردو فتاویٰ جات میں صراحتاً تو کچھ نہیں ملا۔ البتہ مندرجہ ذیل جزئیے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی صورت میں نماز فاسد نہ ہو گی، اور یہ حکم (یعنی نماز کا فاسد نہ ہونا) مطلقاً ہے (یعنی خواہ یہ وسوسہ دینی امور سے متعلق ہو یا دنیوی امور سے متعلق ہو، ہر حال میں نماز فاسد نہ ہو گی)۔
چنانچہ طحطاوی علی الدر میں بحرالرائق کے حوالے سے ہے:
و لو تعوذ لدفع الوسوسة لا تفسد مطلقاً. ( 1/ 264 )
ترجمہ: وسوسہ دور کرنے کے لیے اگر کسی نے “اعوذ بالله” کہا تو اس سے کسی بھی حال میں نماز فاسد نہ ہو گی۔
ظاہر ہے کہ جو حکم “اعوذ بالله” کہنے کا ہے وہی حکم ” استغفر الله” کہنے کا ہو گا، کیونکہ ان دونوں میں بظاہر کوئی فرق نہیں۔
لیکن “در مختار” میں ہے:
و لو حوقل لدفع الوسوسة إن لأمور الدنيا تفسد، لا لأمور الآخرة. (در مع الرد: 2/ 260)
ترجمہ: وسوسہ دور کرنے کے لیے اگر کسی نے “لا حول و لا قوة إلا بالله” پڑھا، تو دیکھا جائے گا کہ اگر وسوسہ دنیوی امور سے متعلق تھا تو نماز فاسد ہو جائے گی ، اور اگر دینی امور سے متعلق تھا تو نماز فاسد نہ ہو گی۔
اس جزئیے کا تقاضا یہ ہے کہ وسوسے کو دور کرنے کے لیے “اعوذ بالله” کہنے میں بھی یہی تفصیل ہونی چاہیے۔
چنانچہ علامہ طحطاوی رحمہ اللہ اسی جزئیے کی بنا پر در مختار کے حاشیے میں صاحب بحر کے مندرجہ بالا قول ( یعنی“اعوذ بالله” کہنے سے مطلقاً نماز فاسد نہ ہو گی) پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
و في قوله و لو تعوذ لدفع الوسوسة لا تفسد مطلقاً نظر إذ لا فرق بينها و بين الحوقلة. فليتأمل (طحطاوی علی الدر:1/ 264)
یعنی صاحب بحر کے اس قول میں نظر ہے کہ وسوسہ دور کرنے کے لیے تعوذ پڑھنے سے نماز مطلقاً فاسد نہ ہو گی، کیونکہ تعوذ اور “لا حول الخ” پڑھنے میں کوئی فرق نہیں۔ لہذا غور کر لیا جائے۔
لیکن ہمارے خیال میں علامہ طحطاوی رحمہ اللہ کا یہ تبصرہ درست نہیں۔
اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ علامہ طحطاوی رحمہ اللہ کو خود اپنی بات پر جزم نہیں، شاید اسی لیے آخر میں “فليتأمل” کہہ کر دوسروں کو بھی دعوت تأمل دے دی۔
اور دوسری وجہ یہ ہے کہ وسوسہ دور کرنے کے لیے “لا حول الخ” پڑھنے میں جو تفصیل ذکر کی گئی ہے وہ خود محل نظر ہے۔
کیونکہ اس تفصیل کی وجہ بقول علامہ حلبی کبیر کے یہ ہے کہ وسوسہ دور کرنے کے لیے “لا حول الخ” پڑھنا ایسے ہی ہے،جیسے بلند آواز سے نماز میں رونا، کہ یہ رونا امر آخرت کی وجہ سے ہو تو اس رونے سے نماز فاسد نہیں ہوتی اور اگر یہ رونا کسی دنیوی امر کی وجہ سے ہو تو اس سے نماز فاسد ہو جاتی ہے۔
چنانچہ علامہ حلبی کبیر “منیۃ المصلی” کی شرح میں لکھتے ہیں:
المصلي إذا وسوسه الشيطان فقال “لا حول و لا قوة إلا بالله” إن كان ذلك الذي وسوسه في أمر من أمور الآخرة لا تفسد صلاته و إن كان في أمر من أمور الدنيا تفسد كذا ذكره في الذخيرة لأن الوسوسة ألم فكأنه حوقل بسبب أخروي في الأول و بسبب دنيوي في الثاني فصار كما لو ارتفع بكاؤه إذ العبرة عند التلفظ بما قصد باللفظ. (٤۵۰)
خلاصہ یہ ہے کہ
وسوسہ اگر دینی امر سے متعلق ہو تو اسے دور کرنے کے لیے “لا حول الخ” پڑھنے سے نماز فاسد نہ ہو گی، اور اگر دنیوی امر سے متعلق ہو تو اسے دور کرنے کے لیے “لا حول الخ” پڑھنے سے نماز فاسد ہو جائے گی۔ وجہ یہ ہے کہ وسوسہ ایک درد اور تکلیف ہے، لہذا پہلی صورت میں “لا حول الخ” پڑھنا سبب اخروی کی وجہ سے تھا اور دوسری صورت میں “لا حول الخ” پڑھنا دنیوی تکلیف کی وجہ سے تھا، تو یہ ایسے ہی ہے جیسے بلند آواز سے رونا (کہ یہ رونا کسی اخروی سبب سے ہو تو نماز فاسد نہیں ہوتی، اور اگر کسی دنیوی سبب سے ہو تو نماز فاسد ہو جاتی ہے)۔
جبکہ مندرجہ ذیل جزئیات سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیوی تکلیف کی وجہ سے بھی زبان سے کوئی ایسا کلمہ کہنا جو کلام الناس کی قبیل سے نہ ہو تو اس سے راجح اور مفتیٰ بہ قول کے مطابق نماز فاسد نہیں ہو تی، اور جو حضرات اس طرح کے کلمے کو بلند آواز سے رونے کی مانند کہہ کر نماز کے فاسد ہونے کا کہتے ہیں، ان حضرات کا یہ قول مرجوح اور غیر مفتیٰ بہ قول ہے۔
چنانچہ فتاویٰ شامی میں بحر الرائق کے حوالے سے ہے:
1۔ في البحر: لو لدغته عقرب أو أصابه وجع فقال بسم الله قيل تفسد لأنه كالأنين و قيل لا تفسد لأنه ليس من كلام الناس و في النصاب و عليه الفتوی و جزم به في الظهيرية و كذا لو قال يا رب كما في الذخيرة. (رد المحتار: 2/ 460)
ترجمہ: اگر نمازی کو بچھو نے ڈس لیا یا اس کو کوئی اور تکلیف پہنچی اور اس نے کہا “بسم الله” تو ایک قول یہ ہے کہ نماز فاسد ہو جائی گی، کیونکہ یہ کہنا (چونکہ دنیوی تکلیف کی وجہ سے ہے) لہذا یہ ایسا ہی ہے جیسے ( دنیوی تکلیف کی وجہ سے) بلند آواز سے رونا۔
لیکن دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے نماز فاسد نہ ہو گی، کیونکہ یہ کلام الناس کی قبیل سے نہیں، اور “نصاب” میں ہے کہ اسی پر فتویٰ ہے، اور “ظہیریہ” میں اسی پر جزم کیا ہے۔
2۔ چنانچہ اسی مفتیٰ بہ قول کی بنا پر علامہ شامی رحمہ اللہ نے” در مختار”میں مذکور مندرجہ ذیل جزئیے پر اشکال کیا ہے۔
و لو سقط شيء من السطح فبسمل …. تفسد. (در مع الرد: 2/ 460)
ترجمہ: اگر چھت سے کوئی چیز گرنے پر نمازی نے “بسم” کہی ۔۔۔۔ تو نماز فاسد ہو جائے گی۔
اس پر علامہ شامی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
قوله: (فبسمل) يشكل عليه ما في البحر: لو لدغته عقرب أو أصابه وجع فقال بسم الله قيل تفسد لأنه كالأنين و قيل لا تفسد لأنه ليس من كلام الناس و في النصاب و عليه الفتوی و جزم به في الظهيرية. (رد المحتار: 2/ 460)
ترجمہ: صاحب درمختار کے اس قول پر (کہ چھت سے کوئی چیز گرنے پر نمازی نے بسم اللہ کہی تو نماز فاسد ہو جائے گی) بحر الرائق میں مذکور اس جزئیے سے اشکال ہوتا ہے کہ اگر نمازی کو بچھو نے ڈس لیا یا اس کو کوئی تکلیف اور اس نے “بسم اللہ” کہی تو نماز فاسد نہ ہو گی اور اسی پر فتویٰ ہے۔۔۔ الخ۔
اور “فتاویٰ دار العلوم دیوبند” میں بھی “در مختار” میں جو صورت ذکر کی گئی ہے، اسی جیسی ایک صورت میں عدم فساد کا فتویٰ دیا گیاہے۔
چنانچہ “فتاویٰ دار العلوم دیوبند” میں ہے:
“سوال 1386: ایک شخص نماز پڑھ رہا تھا، ناگاہ بندوق یا گولہ کی آواز اس کے کان میں آئی، بے اختیار اس کے منہ سے “الا اللہ” نکلا، اس صورت میں نماز فاسد ہو جاتی ہے یا نہیں؟ ۔۔ الخ
جواب: قال في الدر المختار و لو سقط شيء من السطح فبسمل أو دعی لأحد أو عليه فقال آمين تفسد و لا يفسد الكل عند الثاني و الصحیح قولهما الخ و في رد المحتار : قوله (فبسمل) يشكل عليه ما في البحر: لو لدغته عقرب أو أصابه وجع فقال بسم الله قيل تفسد لأنه كالأنين و قيل لا تفسد لأنه ليس من كلام الناس و في النصاب و عليه الفتوی و جزم به في الظهيرية و كذا لو قال يا رب كما في الذخيرة الخ. پس معلوم ہوا کہ صورت مسئولہ میں راجح عدم فسادِ نماز ہے۔” (4/ 68)
3۔ اور خود علامہ طحطاوی رحمہ اللہ نے بھی بچھو کے ڈسنے والے جزئیے کو ذکر کیا ہے، اور اس پر فتویٰ بھی ذکر کیا ہے، لیکن اس پر اور کسی قسم کا تبصرہ نہیں فرمایا۔ چنانچہ “طحطاوی علی الدر” میں ہے:
و لو لدغته عقرب أو أصابه وجع فقال بسم الله لا تفسد و عليه الفتوی كما في النصاب. (1/ 264)
ترجمہ: اگر بچھو کے کاٹنے یا کسی تکلیف کے پہنچنے پر نمازی نے “بسم اللہ” کہی تو اس سے نماز فاسد نہ ہو گی، اسی پر فتویٰ ہے، جیسا کہ “نصاب” میں ہے۔
اس ساری تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ وسوسہ دور کرنے کے لیے “لا حول الخ” پڑھنے میں جو تفصیل مذکور ہے وہ راجح اور مفتیٰ بہ قول کی رُو سے درست نہیں۔
4۔ اور تعوذ والے مسئلے کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو مشکوٰۃ شریف باب الوسوسۃ میں بحوالہ مسلم شریف مذکور ہے:
عن عثمان بن أبي العاص رضي الله عنه قال قلت يا رسول الله إن الشيطان قد حال بيني و بين صلاتي و بين قراءتي يلبسها عليّ فقال رسول الله صلی الله عليه و سلم ذاك شيطان يقال له خنزب فإذا أحسسته فتعوذ بالله و اتفل علی يسارك ثلاثاً ففعلت ذلك فأذهبها الله عني. (مشكاة باب الوسوسة، الفصل الثالث)
ترجمہ: حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں آکر عرض کیا یا رسول اللہ! شیطان نماز میں آ کر مجھے حائل ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ پڑھنے میں بھی شک ڈال دیتا ہے، ایسے موقع پر کیا کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا اس شیطان کا نام “خنزب” ہے، تم جانو کہ وہ آگیا ہے تو خدا سے پناہ چاہو اور تین مرتبہ بائیں طرف یعنی قلب کی طرف تھتکار دو۔ حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ نے فرمایا کہ میں نے ایسا کیا تو الحمد للہ اس عمل کی برکت سے حق تعالیٰ نے اس وسوسہ کو دفع کیا۔
تائید اس طرح ہے کہ اس حدیث میں آپ ﷺ نے وسوسہ دور کرنے کے لیے تعوذ پڑھنے کا حکم دیا، پس اگر وسوسہ دور کرنے کے لیے تعوذ پڑھنے سے مطلقاً نماز فاسد نہ ہو تی بلکہ اس میں کچھ تفصیل ہوتی کہ دینی امور سے متعلق وسوسہ ہو تو تعوذ پڑھنے سے نماز فاسد نہ ہو گی اور دنیوی امور سے متعلق وسوسہ ہو تو نماز فاسد ہو جائے گی تو آپ علیہ السلام اس کو بیان فرماتے، کیونکہ یہ بیان کا موقعہ تھا۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ وسوسہ دور کرنے کے لیے تعوذ پڑھنے یا استغفر اللہ کہنے یا لا حول پڑھنے سے مطلقاً نماز فاسد نہ ہو گی، خواہ وسوسے کا تعلق دینی امور سے ہو یا دنیوی امور سے ہو۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved