استفتاء
(۱)حضرت نمازی کے آگے سے گزرنا کیسا ہے؟(۲)اوراگر گزر سکتے ہیں تو کتنے فاصلے سے؟قرآن وحدیث کی روشنی میں مسئلہ تحریر فرمائیں
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔جب تک کوئی خاص مجبوری نہ ہو تو بغیر سترہ کے یا دوصفوں کافاصلہ چھوڑے بغیر نمازی کےآگے سے گذرنا گناہ ہے۔
2۔اگر نمازی کھلے میدان میں یا بڑی مسجد میں نماز پڑھ رہا ہو تو نمازی کےکھڑے ہونے کی جگہ سے دوصفوں کافاصلہ چھوڑ کرگذرسکتے ہیں اورچھوٹی مسجد میں سترہ کےبغیر گذرنا جائز نہیں۔
چھوٹی بڑی مسجد میں فرق یہ ہے کہ جس مسجد کی لمبائی چوڑائی ہر ایک بیس گز یا اس سے زیادہ ہو وہ بڑی ہے ورنہ چھوٹی ہے۔
شامی (2/479)میں ہے:
ومرور مارفي الصحراء اوفي مسجد کبير بموضع سجوده في الاصح او مرور بين يديه الي حائط القبلة في بيت ومسجد صغير فانه کبقعة واحدة
قوله ( ومسجد صغير ) هو أقل من ستين ذراعا وقيل من أربعين وهو المختار كما أشار إليه في الجواهر قسهتاني قوله ( فإنه كبقعة واحدة ) أي من حيث إنه لم يجعل الفاصل فيه بقدر صفين مانعا من الاقتداء تنزيلا له منزلة مكان واحد بخلاف المسجد الكبير فإنه جعل فيه مانعا فكذا هنا يجعل جميع ما بين يدي المصلي إلى حائط القبلة مكانا واحدا بخلاف المسجد الكبير والصحراء فإنه لو جعل كذلك لزم الحرج على المارة فاقتصر على موضع السجود
مسائل بہشتی زیور(1/178)میں ہے:
بڑی مسجد اورکھلے میدان میں نمازی سے اتنے فاصلے پر گزرناجائز ہے کہ نمازی کی نظر جب سجدہ کی جگہ پر ہو تو گزرنے والے پر نظر نہ پڑے اس کاعام اندازہ یہ ہے کہ نمازی کے کھڑے ہونے کی جگہ سے دو صف چھوڑ کرآگےسے گزرسکتا ہے اوربڑی مسجد وہ کہلاتی ہے جس کا طول وعرض ہرایک بیس گز سے کم نہ ہو ۔اورجو مسجداس سے چھوٹی ہو اس میں سترہ کے بغیر نمازی کے آگے سے نکلنا جائز نہیں ہے اگرچہ دویا زائد صفوں کا فاصلہ چھوڑ کرہی گزرے۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved