- فتوی نمبر: 34-212
- تاریخ: 16 دسمبر 2025
- عنوانات: عبادات > نماز > سترہ کے مسائل
استفتاء
بعض لوگ نمازی کے سامنے سترہ نہ ہونے کی وجہ سے اپنے رومال کو نمازی کے سامنے ہاتھ سے لٹکا کر گزر جاتے ہیں تو کیا نمازی کے سامنے ہاتھ سے رومال کو لٹکا کر گزر سکتے ہیں یعنی اس صورت میں رومال سترہ بن سکتا ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں بعض اہلِ علم نے نمازی کے آگے سے گزرنے کی گنجائش دی ہےاور مذکورہ صورت کو سترہ تسلیم کیا ہے تاہم ہماری تحقیق میں مذکورہ صورت میں نمازی کے آگے سے گزرنے کی گنجائش نہیں اور مذکورہ صورت سترہ کی نہیں البتہ اگر گزرنے والے کے علاوہ کوئی رومال کو پکڑ لےتو پھر گزرنے کی گنجائش ہےاور اس صورت میں یہ رومال سترہ بن سکتا ہے اور اگر ایسی صورت ممکن نہ ہو تو نمازی کے سامنے رومال ڈال کر گزرنے کی گنجائش ہے۔
توجیہ:مذكوره صورت میں رومال چونکہ گزرنے والے نے خود پکڑا ہوا ہے،اس لیے یہ رومال گزرنے والے کے تابع ہے اس لیے گزرنے والے کا رومال لٹکانا سترہ ہونے کے لیے کافی نہیں البتہ اگر چھت وغیرہ سے کپڑا لٹکا ہوا ہو یا گزرنے والے کے علاوہ کوئی اور رومال لٹکادے تو اس صورت میں رومال سترہ بن سکتا ہےلہذا مذکورہ صورت میں رومال سترہ نہیں بن سکتا ،البتہ ایک مرجوح قول کے مطابق نمازی کے سامنے چھڑی وغیرہ ڈالنا اور خط کھینچنا بھی بطور سترہ کافی ہے اور علامہ شامی کی رائے کے مطابق کوئی کتاب یا کپڑا رکھ دینا بھی کافی ہے اس لیے بوقتِ ضرورت نمازی کے سامنے رومال ڈال کر گزرنے کی گنجائش ہے۔
شامی (1/ 637)میں ہے:
(ولا يكفي الوضع ولا الخط) وقيل يكفي فيخط طولا، وقيل كالمحراب.
وفی الشامية: (قوله وقيل يكفي) أي كل من الوضع والخط: أي يحصل به السنة، فيسن الوضع كما نقله القدوري عن أبي يوسف، ثم قيل يضعه طولا لا عرضا ليكون على مثال الغرز. ويسن الخط كما هو الرواية الثانية عن محمد لحديث أبي داود «فإن لم يكن معه عصا فليخط خطا» وهو ضعيف، لكنه يجوز العمل به في الفضائل. ولذا قال ابن الهمام: والسنة أولى بالاتباع مع أنه يظهر في الجملة إذ المقصود جمع الخاطر بربط الخيال به كي لا ينتشر، كذا في البحر وشرح المنية. قال في الحلية: وقد يعارض تضعيفه بتصحيح أحمد وابن حبان وغيرهما له.
عنایہ (1/ 407)میں ہے:
والتاسع أن المعتبر هو الغرز دون الإلقاء والخط. قيل هذا إذا كانت الأرض رخوة، أما إذا كانت صلبة لا يمكنه الغرز فإنه يضعها طولا لتكون على هيئة الغرز وإن لم تكن معه خشبة قال بعض مشايخنا المتأخرين: يخط خطا طويلا، وهو قول الشافعي ولم يعتبره المصنف؛ لأن المقصود وهو الحيلولة بينه وبين المار لا يحصل به فيكون وجوده كعدمه وهو المروي عن أبي حنيفة ومحمد.وروى هشام عن أبي يوسف أنه كان يطرح سوطه بين يديه ويصلي.
فتح القدير (1/ 408)میں ہے:
(ويعتبر الغرز دون الإلقاء والخط) لأن المقصود لا يحصل به
(قوله الغرز دون الإلقاء) هذا إذا كانت الأرض بحيث يغرز فيها، فإن كانت صلبة اختلفوا، فقيل توضع. وقيل لا توضع، وأما الخط فقد اختلفوا فيه حسب اختلافهم في الوضع إذا لم يكن معه ما يغرزه أو يضعه.
فالمانع يقول لا يحصل المقصود به إذ لا يظهر من بعيد، والمجيز يقول ورد الأثر به، وهو ما في أبي داود «إذا صلى أحدكم فليجعل تلقاء وجهه شيئا، فإن لم يجد فلينصب عصا. وإن لم يكن معه عصا فليخط خطا ولا يضره ما مر أمامه» واختار المصنف الأولى. والسنة أولى بالاتباع مع أنه يظهر في الجملة إذ المقصود جمع الخاطر بربط الخيال به كي لا ينتشر
شامی (2/ 485) میں ہے:
[تنبيه]لم يذكروا ما إذا لم يكن معه سترة ومعه ثوب أو كتاب مثلا هل يكفي وضعه بين يديه؟ والظاهر نعم كما يؤخذ من تعليل ابن الهمام المار آنفا.
شامی(1/636)میں ہے:
(قوله ولو ستارة ترتفع) أي تزول بحركة رأسه إذا سجد، وهذه الصورة ذكرها سعدي جلبي جوابا عن صاحب الهداية حيث اختار أن الحد موضع السجود كما مشى عليه المصنف، فأورد عليه أنه مع الحائل كجدار أو أسطوانة لا يكره والحائل لا يمكن أن يكون في موضع السجود. فأجاب سعدي جلبي بأنه يجوز أن يكون ستارة معلقة إذا ركع أو سجد يحركها رأس المصلي ويزيلها من موضع سجوده ثم تعود إذا قام أو قعد. اه. وصورته أن تكون الستارة من ثوب أو نحوه معلقة في سقف مثلا ثم يصلي قريبا منها فإذا سجد تقع على ظهره ويكون سجوده خارجا عنها وإذا قام أو قعد سبلت على الأرض وسترته تأمل…….. أقول: وإذا كان معه عصا لا تقف على الأرض بنفسها فأمسكها بيده ومر من خلفها هل يكفي ذلك؟ لم أره.
فيض الباری (2/ 114)میں ہے:
وفي حاشية «العناية» للشيخ سعد الدين: أنه لو أسبل غشاوة من السقف كفاه للسترة.
قلت: وعلى هذا فمن كان لا بد أن يمر بين يدي المصلي فلیسبل منديله أمامه ثم ليمر ولعله يكون أيسر له من مروره كما هو.
معارف السنن(3/351)میں ہے:
وإذا لم يجد سترة فهل يخط خطاً كالهلال أولا ؟ فاختار صاحب ” فتح القدير ” الأول ، وصاحب ” الهداية ” الثاني . أنظر فتح القدير ” (۱ – ۲۸) قبيل فصل المكروهات ، وما اختاره “فتح القدير ” هو رواية عن أبي يوسف ، وعن محمد روايتان ، والمشهور عنه عدم اعتبار الخط ، وعليه أكثر المشائخ وصاحب ” الهداية ” ، واحتج صاحب ” الفتح ” بحديث أبي داؤد كما سيأتى ، وقال : والسنة أولى بالإتباع مع أنه يظهر في الجملة ، إذ المقصود جمع الخاطر بربط الخيال به كيلا ينتشر آه …….. وأما إذا أرخى أحدهم ثوباً أو منديلاً بين يدى المصلى ليمر الآخر فلعله لا يأثم إذن.
امداد الفتاویٰ جدید(3/240)میں ہے:
سوال : مصلی اگر اپنے آگے کپڑا یا چھتری کھول کر رکھدے تو بجائے سترہ کے کافی ہوگا یا نہ اور غلظِ انگشت کی قید سے نفی کپڑے کے سترہ کی ہو سکتی ہے یا نہ؟
الجواب : کپڑا چونکہ مرتفع نہیں ہوتا اس لئے وہ سترہ سترہ نہ ہو گا اور چھتری کھلنے کے بعد اگر ایک ہاتھ اونچی ہو جاوے تو وہ سترہ ہو جاوے گی اسی طرح اگر کپڑا پردہ کے طور پر سامنے لٹکادیا جاوے تو وہ بھی سترہ ہو جاوے گا اور اشتراطِ غلظِ اصبع خود مقصود نہیں بلکہ امتیاز و استبانت کے لئے مقصود ہے اور پردہ میں استبانت ظاہر ہے۔
انعام الباری(3/287)میں ہے:
حنفیہ کے ہاں لکیر کھینچنا مسنون نہیں ہے لیکن حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایسی صورت میں جبکہ بہت مجبوری ہو، کیونکہ حدیث میں ہے “فليخط خطا” کسی صحرا و غیرہ میں جہاں ستره نہ ہوا يسا کرے لیکن مسجد کے اندر کسی خط وغیرہ کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
ایک صورت یہ ہے کہ کوئی آدمی خودسترہ بن جائے جیسے یہاں طالب علم بعض اوقات ایسا کرتے ہیں، اللہ تعالی ان کو جزائے خیر دے کہ وہ خود کھڑے ہو جاتے ہیں تا کہ لوگ سامنے سے گزر جائیں، یہ ٹھیک ہے اس میں کوئی حرج نہیں اور اگر ہاتھ میں رومال ہے، رو مال لٹکا کر گزر جائے یہ بھی جائز ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved