- فتوی نمبر: 24-316
- تاریخ: 18 اپریل 2024
- عنوانات: عبادات > منتقل شدہ فی عبادات
استفتاء
چند ذاتی اور کچھ عام نوعیت کے سوالات ارسال کیے ہیں امید ہے جوابات سے نوازیں گے
- ایک شخص نماز ادا کر رہا ہے دوسرا شخص عین اس پہلے شخص کے پیچھے نماز شروع کر دیتا ہے تو کیا پہلا شخص اپنی نماز مکمل کر کے اس دوسرے شخص کے آگے سے ہٹ سکتا ہے یا دوسرے شخص کے سلام پھیرنے کا انتظار کرے؟
- جماعت کے ساتھ نماز ادا کرتے ہوئے درمیان میں کوئی رکوع یا سجدہ رہ جائے تو مقتدی کیا کرے؟
- میں نماز، روزہ کو ہی کل دین سمجھتا تھا لیکن نیک لوگوں کی صحبت سے بہت کچھ سمجھ آیا،میرے بچے بالغ ہو چکے ہیں ان کو پیار،محبت سے دین کی دعوت اور احکامات پر عمل کی ترغیب دیتا ہوں اس بارے میں میری کیا ذمہ داری ہے؟
- میرے بیٹے کی عمر اب 30سال ہے دو سال قبل اس کی غیر ذمہ داری کی وجہ سے میں اس سے ناراض ہوا اور بولنا بند کر دیا لیکن تین ماہ بعد عید کے موقع پر بات چیت شروع کر دی 2020 میں اس کی شادی یہ سوچ کر کردی کہ یہ میری ذمہ داری ہے مگر اس کی غیر ذمہ داری میں کوئی فرق نہیں آیا موبائل بند کرنے کا کہا وہ بھی نہیں مانا اس طرح کچھ اور باتیں میں نے ناراضگی کا اظہار کیا تو کچھ عرصہ بعد مجھ سے کہا آپ ناراضگی ختم کر دیں میں نے جواب دیا کہ کچھ عملی اقدامات کرو تو بات بنتی ہے لیکن اسے کوئی پروا نہیں اس بارے میں میرے لیے شریعت کے کیا احکامات ہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
- مذکورہ صورت میں نمازی کے سامنے سے دائیں یا بائیں جانب ہٹنا جائز ہے،کیونکہ یہاں مرور (گزرنا)نہیں پایاجاتا۔
- اگر مقتدی سے دوران نماز اونگھ یا غفلت کی وجہ سے کوئی رکن (رکوع،سجدہ وغیرہ) چھوٹ جائے تو اس کو چاہیے کہ متوجہ ہونے کے بعد فوراً رکوع یا سجدہ ادا کرکے امام کے ساتھ مل جائے۔ اور اگر کسی نے اخیر نماز میں امام کے سلام کے بعد چھوٹا ہوا رکن ادا کیا تو نماز ہوجائے گی، لیکن ترتیب کی رعایت نہ کرنے کی وجہ سے گنہگار ہوگا۔ اور کسی ایک رکن کے چھوٹ جانے پر پوری رکعت لوٹانے کی ضرورت نہیں، صرف چھوٹا ہوا رکن اداکرلینا کافی ہے۔
- پیارومحبت سے اپنی اولاد کو احکامِ خداوندی پرعمل کی ترغیب دینا اچھی بات ہے اور والدین کی ذمہ داری بھی ہے،لیکن سختی کرنا بالخصوص موجودہ زمانہ میں جب کہ انقیاد واتباع کا عنصر بہت کم ہوتا جارہا ہے مناسب نہیں۔ اولاد بالغ ہونے کے بعد اپنے اعمال کی ذمہ دار خود ہوتی ہے، والدین سے اس کے بارے میں باز پرس نہ ہوگی، البتہ بچپن میں تربیت وتعلیم میں کمی کی ہو اور اب اس کا تدارک کرنا چاہتے ہوں تو نرمی اور ہمدردی سے متوجہ کردیا جائے۔
- تنبیہ کرنے اور اصلاح کی نیت سے وقتی اور عارضی طور پر قطع تعلقی کی اجازت ہے،البتہ قطع تعلقی کے علاوہ ایسی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں، جس سے والدین کی منشاء کا احساس ہو۔
شامی(483/2)میں ہے:
اراد المرور بین یدي المصلي فإن کان معه شيئ یضعه بین یديه ثم یمر ویأخذه، ولو مر اثنان یقوم أحدهما أمامه ویمر الآخر ویفعل الآخر هكذا ویمران.
شامی(416/2)میں ہے:
وفی البحر:وحكمه أنه یبدأ بقضاء ما فاته بالعذر ثم یتابع الإمام إن لم یفرغ، و هذا واجب لا شرط حتی لو عکس یصح؛ فلو نام فی الثالثة واستیقظ فی الرابعة فإنه یأتي بالثالثة بلا قراءة، فإذا فرغ منها صلی مع الإمام الرابعة،وإن فرغ منها الإمام صلاها وحده بلا قراءة أیضاً؛ فلو تابع الإمام ثم قضی الثالثة بعد سلام الإمام صح وأثم.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved