• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

نمازوں کی ادائیگی کے لیے چھٹی

استفتاء

پی کمپنی کی طرف سے نمازوں کے اوقات میں ملازمین کو اجازت دی جاتی ہے کہ وہ نماز مسجد میں پڑھنا چاہیں تو پڑھ سکتے ہیں تاہم جو ملازمین نماز نہ پڑھتے ہوں ان پر کمپنی کی طرف سے کوئی سختی نہیں کی جاتی، البتہ ترغیب دی جاتی ہے۔

پی کمپنی کے ہیڈ آفس کے قریب ایک مسجد ہے جہاں جمعہ کی پہلی اذان15: 12بجے ہوتی ہے اور 1:15پر نماز ہوتی ہے جبکہ ملازمین12:30 مسجد کی طرف جانا شروع ہوجاتے ہیں کوئی ملازم 15: 12جانا چاہے تو جاسکتاہے کمپنی کی طرف سے کوئی ممانعت نہیں ہے۔تاہم اگر کوئی وقت پر نہ جائے یا نماز نہ پڑھتا ہو تو اس سلسلے میں کمپنی کی طرف سے ملازمین کو کوئی پابند کرنے کا نظام بھی نہیں ہے۔

۱۔ ملازمین کونمازِجمعہ ودیگر نمازوںکی ادائیگی کیلئے چھٹی دینے کی شرعاً کیا حیثیت ہے؟

۲۔ نیزنماز نہ پڑھنے والے ملازمین کے سلسلے میں کمپنی پر کوئی شرعی ذمہ داری عائد ہوتی ہے یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

۱۔ ملازمین کو نمازِ جمعہ اور دیگر نمازئوں کی ادائیگی کے لیے چھٹی دینا شرعاً ضروری ہے نیز جمعہ کے دن اذان اول پر چھٹی دے دینا بھی شرعاً ضروری ہے۔

۲۔ ملازمین چونکہ پی کمپنی کے ماتحت کام کرتے ہیں اور ماتحتوں کے بارے میںاحادیث مبارکہ میں خیر خواہی اور ہمدردی کی تاکید کی گئی ہے لہذا پی کمپنی کو چاہیے کہ وہ اپنی کوشش کی حد تک حکمت وبصیرت اور خیر خواہی و ہمدردی کے جذبہ کے ساتھ  ملازمین کو نماز پڑھنے کی ترغیب دے ۔نیز اس مقصد کے لیے اچھی کارکردگی کی بنیاد پر جو رپورٹ تیار ہوتی ہے جس کی وجہ سے سالانہ انکریمنٹ لگتا ہے اس میں نماز کے اہتمام کو بھی محلوظ رکھا جا سکتا ہے۔ البتہ اگر ترغیب کے باوجود ملازمین نماز نہ پڑھیں تو ایسی صورت میں پی کمپنی کی انتظامیہ گناہ گار نہیں ہوگی بلکہ اس کے ذمہ دار خود ملازمین ہونگے۔

(۱)         حاشیة ابن عابدین: (۲/۴۲)

(وجب سعی إلیها و ترک البیع) ولومع السعی… بالآذان الأول) فی الأصح۔ قوله: (وترک البیع) أراد به کل عمل ینافی السعی وخصه اتباعاً للآیة، نهر۔

(۲)         عمدة القاری شرح صحیح البخاری :(۶ /۱۹۰، داراحیاء التراث العربی)

 قوله: (کلکم راع) أصل: راع راعی فاعل، اعلال قاض، من رعی رعایة، وهو حفظ الشیء  وحسن التعهد له، والراعی: هو الحافظ المؤتمن الملتزم صلاح ما قام علیه وما هو تحت نظره، فکل من کان تحت نظره شیء فهو مطلوب بالعدل فیه والقیام بمصالحه فی دینه ودنیاه ومتعلقاته، فإن وفی ما علیه من الرعایة حصل له الحظ الأوفر والجزاء  الأکبر، وإن کان غیر ذلک طالبه کل أحد من رعیته بحقه۔۔۔(کلکم راع) ۔۔ وقد اشترک الإمام والرجل والمرأة والخادم فی هذه التسمیة، ۔۔۔۔ أو الخطاب خاص بأصحاب التصرفات ومن تحت نظره ما علیه إصلاح حاله.

(۳)         وفیه: (۱ / ۳۲۲، داراحیاء  التراث العربی)

السابع: فی الحدیث فوائد. منها: ما قیل: إن الدین یطلق علی العمل لکونه سمی النصیحة دینا. ومنها: إن النصیحة فرض علی الکفایة لازمة علی قدر الطاقة إذا علم الناصح أنه یقبل نصحه، ویطاع أمره وأمن علی نفسه المکروه، فإن خشی فهو فی سعة، فیجب علی من علم بالمبیع عیبا أن یبینه بائعا کان أو أجنبیا، ویجب علی الوکیل والشریک والخازن النصح. ومنها: أن النصیحة کما هی فرض للمذکورین، فکذلک هی فرض لنفسه، بأن ینصحها بامتثال الأوامر واجتناب المناهی.

(۴)         شرح صحیح البخاری لابن بطال :(۱ / ۱۲۹،مکتبة الرشد)

والنصیحة لازمة علی قدر الطاقة إذا علم الناصح أنه یقبل نصحه ویطاع أمره، وأمن علی نفسه المکروه. وأما إن خشی الأذی فهو فی سعة منها.

(۵)         شرح الشفا: (۲/۳، دارالکتب العلمیة)

    والنصیحة فی الشریعة کلمة یعبر بها عن جملة هی إرادة الخیر للمنصوح له۔

(۶) الموسوعة الفقهیة الکویتیة (۴۰/۳۲۵، الطبعة الثانیة، طبع الوزارة)

 ذهب الفقهاء إلی أن النصیحة تجب للمسلمین، قال ابن حجر الهیثمی: یتأکد وجوبها لخاصة المسلمین وعامتهم. وقال الراغب الأصفهانی: عظم النبیﷺ أمر النصح فقال: الدین النصیحة  ، فبین علیه الصلاة والسلام أن النصح واجب لکافة الناس بین تتحری مصلحتهم فی جمیع أمورهم.

(۷)         وفیه أیضا:

من تجب له النصیحة وما تکون به: وأما نصیحة عامة المسلمین  وهم من عدا ولاة الأمر،  فإرشادهم لمصالحهم فی آخرتهم ودنیاهم، وکف الأذی عنهم، فیعلمهم ما یجهلون من دینهم ویعینهم علیه بالقول والفعل، وستر عوراتهم، وسد خلاتهم، ودفع المضار عنهم وجلب المنافع لهم وأمرهم بالمعروف ونهیهم عن المنکر برفق وإخلاص، والشفقة علیهم، وتوقیر کبیریم، ورحمة صغیرهم، وتخولهم بالموعظة الحسنة، وترک غشهم وحسدهم، وأن یحب لهم ما یحب لنفسه من الخیر، ویکره لهم ما یکره لنفسه، من المکروه، والذب عن أموالهم وأعراضهم، وغیر ذلک من أحوالهم، بالقول والفعل، وحثهم علی التخلق وبجمیع ما ذکرناه من أنواع النصیحة، وتنشیط هممهم إلی الطاعات

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved