• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ننگے سر نماز پڑھنا

استفتاء

مفتی صاحب آپ کے دارالافتاء سے جاری شدہ  ایک فتویٰ جس کا عنوان تھا ننگے سر نماز پڑھنا اور فتویٰ نمبر 81/25 ہے اس کے جواب  میں مجھے درج ذیل تحریر کا سامنا کرنا پڑا مہربانی فرما کر میری رہنمائی فرمائیں؟

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ ﷺ اما بعد :نماز میں اور نماز سے باہر ہمیشہ یا کبھی صرف ٹوپی استعمال کرنا بلاشبہ جائز اور مباح ہے پگڑی باندھنی نہ فرض ہے نہ واجب نہ سنت مؤکدہ اور حدیث :ان فرق ما بیننا وبین المشرکین العمائم علی القلانس (ترمذی ابوداؤد) ضعیف ہے۔ اور اگر صحیح بھی مان لی جائے تو ابن الملک وغیرہ شراح کے بیان کردہ معنی کے مطابق اس حدیث سے صرف ٹوپی پہننے کی کراہت نہیں ثابت ہوتی۔ آنحضرتﷺ بغیر عمامہ کے صرف ٹوپی بھی استعمال فرمایا کرتے تھے ۔امام ابن القیم زاد المعاد میں فرماتے ہیں :وكان يلبس (اي العمامة) ويلبس تحتها القلنسوة وكان يلبس  القلنسوة بغير عمامة ويلبس العمامة بغير قلنسوة انتهى(ص34ج1) اور جامع ترمذی (ص۲۱۱ج۱) میں ہے عن ابی یزید الخولانی انه  سمع فضالة بن عبید یقول سمعت عمر بن الخطاب رضي الله عنه یقول سمعت رسول الله ﷺ یقول الشهداء اربعة جل مومن جید الایمان لقی العدو فصدق الله حتی قتل فذالک الذی یرفع الناس اليهم  اعینهم  یوم القيامة هكذا ورفع رأسه حتى وقعت قلنسوته فلا ادري قلنسوة عمر اراد ام قلنسوة النبي صلى الله عليه وسلم (الحديث) اور جامع صغیر للسیوطی میں ہے:کان (ﷺ) یلبس القلانس تحت العمائم وبغیر العمائم ویلبس العمائم بغیر القلانس وكان يلبس القلانس اليمانية (الحديث) اس اثر سے معلوم ہوا کہ ابو اسحق سبیعی جوکبار تابعین  میں سے ہیں اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے استاذ ہیں اور اڑتیس صحابیوں سے حدیث روایت کی ہے۔ نماز بھی صرف ٹوپی کے ساتھ ادا فرماتے  تھے(محدث دہلی جلد ۱۰،ص۳) فتاویٰ علمائے حدیث جلد۴ص۲۹۵۔۔۔۔۔۔ سر پر ٹوپی وغیرہ رکھ کر نماز پڑھنا افضل ہے لیکن ننگے سر نماز پڑھنا بھی سنت سے ثابت ہے یعنی ننگے سر نماز پڑھنا جائز  ہے اور اس میں کوئی قباحت نہیں پھر کیوں اتنی ضد کرتے ہیں لوگ ؟ اور کچھ تو ٹوپی کے چکر میں نماز سے بھی کوتاہی کر جاتے ہیں اور ننگے سر پڑھنے والے بھائیوں پر کفر تک کے فتویٰ لگاتے ہیں اللہ ان کو سمجھ اور ہدایت دے آمین  صحابی جابر رضی اللہ عنہ نے ننگے سر نماز پڑھائی اور پوچھنے والوں کو بتایا کہ میں نے تم جیسے جاہلوں کو سمجھانے کے لئے ایسا کیا میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا اس کی دلیل کے لئے دیکھئے  (بخاری شریف حدیث نمبر ۳۷۰ )

دوسرا پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عمل انہوں نے وسعت کے زمانے میں بھی سر ڈھانپنا نماز کے لئے ضروری نہ سمجھا (بحوالہ بخاری شریف # ٣٦٥)

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ تحریر میں شروع میں جو احادیث نقل کی گئی ہیں  وہ تو صرف اس بارے میں ہیں کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کبھی صرف  ٹوپی   استعمال فرمایا کرتے تھے اور  کبھی صرف عمامہ باندھتے تھے اور کبھی ٹوپی پر عمامہ بھی باندھتے تھے الغرض عمامہ (پگڑی ) باندھنا ضروری نہیں لیکن ان احادیث میں سے کسی سے  یہ ثابت نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ عمامہ (پگڑی)باندھتے تھے اور نہ ٹوپی پہنتے  تھے بلکہ ننگے سر رہتے تھے۔ باقی رہی حضرت جابر ؓ والی  حدیث جو بحوالہ بخاری شریف ذکر کی گئی ہے  اس میں   ننگے سر نماز پڑھنے کا ذکر ہی نہیں بلکہ اس میں  ایک چادر  میں نماز پڑھنے کا ذکر ہے ۔  اور حضرت عمرؓ والی حدیث میں  بھی ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کا ذکر ہے ان احادیث سے ننگے سر نماز پڑھنے کا مطلب ان حضرات (غیر مقلدین) نے خود نکالا ہے شاید اسی وجہ سے صرف حدیث کا نمبر دیا ہے حدیث کی عبارت اور  ترجمہ ذکر نہیں کیا۔چنانچہ بخاری شریف کی مذکورہ احادیث بمع ترجمہ مندرجہ ذیل ہیں ۔حدثنا عبد العزيز بن عبد الله قال حدثني ابن أبي الموالي عن محمد بن المنكدر قال دخلت على جابر بن عبد الله وهو يصلي في ثوب ملتحفا به ورداؤه موضوع فلما انصرف قلنا يا أبا عبد الله تصلي ورداؤك موضوع قال نعم أحببت أن يراني الجهال مثلكم رأيت النبي صلى الله عليه وسلم يصلي هكذا بخاری شریف (رقم الحدیث: 370)

ترجمہ: محمد بن منکدر ؒ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اس حال میں کہ وہ ایک کپڑے میں لپٹ کر نماز ادا کررہے تھے جبکہ ان کی چادر (پاس ہی) رکھی ہوئی تھی ۔جب انہوں نے نماز ادا کرلی تو میں نے ان سے پوچھا کہ اے ابو عبداللہ  آپ کی چادر پاس  ہی رکھی ہے اور پھر بھی آپ (ایک کپڑے میں لپٹ کر) نماز ادا کررہے ہیں  ؟ انہوں نے فرمایا کہ جی ہاں !میں نے یہ چاہا کہ تم جیسے ناواقف لوگ مجھے دیکھ لیں، میں نے نبی کریم ﷺ  کو ایسے ہی نماز ادا کرتے دیکھا ہے۔حدثنا سليمان بن حرب قال حدثنا حماد بن زيد عن أيوب عن محمد عن أبي هريرة قال قام رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فسأله عن الصلاة في الثوب الواحد فقال أوكلكم يجد ثوبين ثم سأل رجل عمر فقال إذا وسع الله فأوسعوا جمع رجل عليه ثيابه صلى رجل في إزار ورداء في إزار وقميص في إزار وقباء في سراويل ورداء في سراويل وقميص في سراويل وقباء في تبان وقباء في تبان وقميص قال وأحسبه قال في تبان ورداء۔ بخاری شریف (رقم الحدیث:365)

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص آپ ﷺ کے  پاس آکر کھڑا ہوا اور اس نے  آپ ﷺ سے ایک کپڑے میں نماز ادا کرنے کے بارے میں پوچھا ،تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا تم میں سے ہرایک کے پاس دو دو کپڑے ہوتے ہیں ؟  اس کے بعد اس آدمی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے  اس کی تفصیل پوچھی تو انہوں نے کہا جب اللہ تعالیٰ نے تمہیں فراغت دی ہے تو تم بھی فراغت کے ساتھ رہو۔ آدمی کو چاہیے کہ نماز میں اپنے کپڑے اکٹھے کر لے، کوئی آدمی تہبند اور چادر میں نماز پڑھے، کوئی تہبند اور قمیص میں ، کوئی تہبند اور قباء میں، کوئی پاجامہ اور چادر میں، کوئی پاجامہ اور قمیص میں، کوئی پاجامہ اور قباء میں، کوئی جانگیا اور قباء میں، کوئی جانگیا اور قمیص میں نماز پڑھے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے یاد آتا ہے کہ آپ نے یہ بھی کہا کہ کوئی جانگیا اور چادر میں نماز پڑھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved