- فتوی نمبر: 28-25
- تاریخ: 08 جون 2022
- عنوانات: خاندانی معاملات
استفتاء
میں اور میرا سگا بھائی ہم زلف ہیں ۔میری ساس نے میری بڑی بیٹی کو ایک وقت کا اپنا دودھ پلایا تھا۔ جس کا پہلے مجھے علم نہیں تھا۔میں نے لاعلمی میں اپنی بیٹی کا رشتہ اپنے بھائی کے بیٹے سے طے کردیا مگر شادی ابھی نہیں ہوئی۔ لڑکی اور لڑکا دونوں خالہ زاد ہیں۔تو کیا نانی کا دودھ پینے کے باوجود خالہ کے بیٹے سے نکاح ہو سکتا ہے؟
وضاحت مطلوب ہے: (1) دودھ پینے کا علم کیسے ہوا؟ دودھ پینے کے وقت اس بیٹی کی عمر کیا تھی؟(2) جس وقت نانی نے دودھ پلایا اس وقت نانی کو دودھ تھا یا نہیں؟ اگر تھا تو نانی کا غالب گمان کیا ہے بچی کے پیٹ میں دودھ گیا ہے یا نہیں؟ نیز اس دودھ پلانے کا نانی کے علاوہ کوئی اور گواہ بھی ہے یا نہیں؟
جواب وضاحت: بچی کی نانی نے خود یہ بات بتائی ہے،دودھ پینے کے وقت بچی کی عمر تقریباً 6 ماہ تھی۔ (2)جناب نانی کا دودھ تھا کیونکہ وہ اپنے بچے کو بھی دودھ پلاتی تھی۔ بچی (لڑکی) کی ماں دوائی لینے کی غرض سے شہر گئی تھی،بقول نانی کے بچی بھوک کے مارےتڑپ رہی تھی اور دودھ پینے کے بعد سو گئی جس سے غالب گمان ہے کہ بچی نے سیر ہو کر دودھ پیااوردودھ پلانے والی کے علاوہ کوئی گواہ نہیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں اس بچی کا اس کی خالہ کے لڑکے کے ساتھ نکاح کرناجائز نہیں ہے۔
توجیہ: مذکورہ صورت میں نانی نے چونکہ لڑکی کو دودھ پلایا ہے لہٰذ ا وہ مذکورہ لڑکے کی رضاعی خالہ بن گئی اور جس طرح حقیقی خالہ کا اپنے حقیقی بھانجےسے نکاح جائز نہیں اسی طرح رضاعی خالہ کا بھی اپنے رضاعی بھانجے سے نکاح جائز نہیں۔ نیز اگر چہ قضاً ثبوتِ رضاعت کے لیے خالی ایک مرد یا ایک عورت کی گواہی کافی نہیں خواہ وہ ایک عورت خود دودھ پلانے والی ہی کیوں نہ ہو اور خواہ گواہی نکاح سے پہلے ہو یا بعد میں ہو، تاہم نکاح سے پہلے ایک مرد یا عورت کی گواہی بھی دیانۃً کافی ہے بشرطیکہ گواہی دینےوالا قابل اعتبار ہو۔
شامی(4/393) میں ہے:
(فيحرم منه) أى بسببه (ما يحرم من النسب)
شامی(4/399) میں ہے:
ولا حل بين الرضيعة وولد مرضعتها أى التى ارضعتها وولد ولدها لانه ولد الاخ
فتاویٰ تاتارخانیہ(4/375) میں ہے:
ولاتقبل فى الرضاع الا شهادة رجلين أو شهادة رجل وامراتين عدول
شامی(4/409) میں ہے:
(قوله حجته إلخ) أي دليل إثباته وهذا عند الإنكار لأنه يثبت بالإقرار مع الإصرار كما مر (قوله وهي شهادة عدلين إلخ) أي من الرجال. وأفاد أنه لا يثبت بخبر الواحد امرأة كان أو رجلا قبل العقد أو بعده، وبه صرح في الكافي والنهاية تبعا، لما في رضاع الخانية: لو شهدت به امرأة قبل النكاح فهو في سعة من تكذيبها، لكن في محرمات الخانية إن كان قبله والمخبر عدل ثقة لا يجوز النكاح، وإن بعده وهما كبيران فالأحوط التنزه وبه جزم البزازي معللا بأن الشك في الأول وقع في الجواز، وفي الثاني في البطلان والدفع أسهل من الرفع. ويوفق بحمل الأول على ما إذا لم تعلم عدالة المخبر أو على ما في المحيط من أن فيه روايتين، ومقتضاه أنه بعد العقد لا يعتبر اتفاقا، لكن نقل الزيلعي عن المغني وكراهية الهداية أن خبر الواحد مقبول في الرضاع الطارئ بأن كان تحته صغيرة فشهدت واحدة بأن أمه أو أخته أرضعتها بعد العقد. قلت: ويشير إليه ما مر من قول الخانية وهما كبيران، لكن قال في البحر بعد ذلك: إن ظاهر المتون أنه لا يعمل به مطلقا، فليكن هو المعتمد في المذهب
البحر الرائق مع منحۃ الخالق(3/105) میں ہے:
وذكر في فتح القدير معزيا إلى المحيط لو شهدت امرأة واحدة قبل العقد قيل يعتبر في رواية ولا يعتبر في رواية اهـ.وفي الخانية من الرضاع وكما لا يفرق بينهما بعد النكاح ولا تثبت الحرمة بشهادتهن فكذلك قبل النكاح إذا أراد الرجل أن يخطب امرأة فشهدت امرأة قبل النكاح أنها أرضعتهما كان في سعة من تكذيبها كما لو شهدت بعد النكاح اهـ.وذكر في باب المحرمات صغير وصغيرة بينهما شبهة الرضاع لا يعلم ذلك حقيقة قالوا لا بأس بالنكاح بينهما هذا إذا لم يخبر بذلك إنسان فإن أخبر عدل ثقة يؤثر بقوله ولا يجوز النكاح بينهما، وإن كان الخبر بعد النكاح وهما كبيران فالأحوط أن يفارقها روي ذلك عن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – أنه أمر بالمفارقة اهـ.فإما أن يوفق بينهما بأن كلا رواية واما يحمل الأول على ما إذا لم تعلم عدالة المخبر.
وفيه ايضا: قوله: واما يحمل الأول على ما إذا لم تعلم عدالة المخبر) وفق المقدسي بأن قوله إذا أخبر ثقة يؤخذ بقوله فلا يجوز النكاح بينهما معناه يفتى لهم بذلك احتياطا وأما الثبوت عند الحاكم وطلب الحكم منه فيتوقف على شهادة النصاب التام قال وقال الشيخ قاسم بن قطلوبغا في شرح النقاية ولو قامت عنده حجة دينية يفتى له بالأخذ بالاحتياط لأن ترك نكاح امرأة يحل نكاحها أولى من إنكاح امرأة لا يحل له نكاحها
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved