- فتوی نمبر: 31-191
- تاریخ: 08 ستمبر 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وصیت کے احکام
استفتاء
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ : میری امی نے اپنی زندگی میں سونا میرے حوالے کیا اور مجھ سے کہا کہ “تم نے یہ سونا اپنی بڑی بہن کے بیٹے زید کو دینا ہے۔ یہ سونا میں نے تحفہ کے طور پر زید کی بیوی کے لیے رکھا ہوا ہے۔ جب زید کی شادی ہو تو اسے دے دینا اور بتانا کہ نانی نے یہ تحفہ دیا ہے “۔ سونا حوالے کرنے کے کچھ عرصے بعد میری امی فوت ہو گئیں ۔ زید اس وقت 12 سال کا ہے۔ اب مجھے پریشانی یہ لگی ہوئی ہے کہ مجھے خود اپنی زندگی موت کا نہیں پتا۔ میں نے سونا ایک تھیلی میں رکھا ہوا ہے اور اس میں ایک پرچی لکھ کر رکھی ہوئی ہے کہ ” یہ سونا زید کی نانی نے زید کی بیوی کے لیے بطور تحفہ کے دیا ہوا ہے جو کہ میرے پاس امانت پڑی ہے “۔ اب زید کی شادی کب ہوتی ہے مجھے نہیں پتا، اس وقت تک میں زندہ بھی رہوں گا کہ نہیں یہ بھی نہیں پتا۔
سوال : اس سونے کو میں اپنے پاس ہی رکھوں؟ جب زید کی شادی ہو جائے، اس دن زید کے حوالے کروں؟ یا زید کو ابھی 12 سال کی عمر میں ہی حوالے کر دوں ؟ یا میں رکھوں تو اپنے پاس ہی لیکن زید کو اطلاع کر دوں کہ آپکی نانو نے آپکی بیوی کے لیے ایک تحفہ میرے پاس رکھوایا ہوا ہے لیکن دوں گا تب جب آپکی شادی ہو جائے گی۔ ؟ یا زید جیسے ہی بالغ ہو تو اس وقت اسکے حوالے کر دوں تا کہ وہ خود اس ذمہ داری کو سنبھالے ؟ یا زید سمیت اُسکے امی ابو بہن بھائی اور اپنے گھر والوں سب کو بتادوں کہ زید کی نانونے میرے پاس زید کی بیوی کے لیے ایک تحفہ میرے پاس رکھوایا ہوا ہے اگر میں مر گیا تو اسے میرے ترکے میں نہ سمجھا جائے بلکہ یہ میرے پاس امانت ہے ۔
تنقیح : وفات سے چار پانچ ماہ قبل انہوں نے یہ سونا مجھے دیا تھا ۔ انہیں دو سال سے گردوں کا عارضہ تھا ڈائلیسز چل رہے تھے لیکن وہ مرض الوفات میں اس وقت نہیں تھی ۔وفات کے قریب طبیعت دوبارہ بگڑ گئی تو ہسپتال داخل رہی پھر انتقال ہو گیا یہ سونا ان کے ایک تہائی مال سے کافی کم ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذكوره صورت میں چونکہ یہ سونا آپ کی والدہ کے کل ترکہ کے ایک تہائی سے کم ہے اس لیے اسے ان کی وصیت کے طور پر زید کے والد کے سپرد کردیں اور انہیں یہ بتادیں کہ یہ زید کی نانی کی طرف سے تحفہ ہے ۔ جب زید کی شادی ہو تو وہ اپنی بیوی کو دے دے۔اور یہ بات زید اور دیگر قریبی لوگوں کے علم میں بھی آجائے کہ اس کے والد کے پاس یہ سونا زید کی بیوی کے لیے رکھا ہوا ہے۔
توجیہ : وصیت کی حقیقت تملیک مضاف الی مابعد الموت ہے ۔مذکورہ صورت میں مرحومہ نے اگرچہ تحفہ دینے میں اپنی موت کے بعد کی صراحت نہیں کی لیکن مرحومہ وصیت کرتے وقت چونکہ گردے کے مہلک مرض میں مبتلاء تھیں اور موصی لہ زید ( جو کہ وصیت کے وقت تقریباً بارہ سال کا تھا ) کی شادی تک ان کے زندہ رہنے کی( مذکورہ بیماری کی وجہ سے ) امید بھی نہیں تھی اور اس بات پر قرینہ ان کا اس سونے کو اپنے بیٹے کے سپرد کرنا ہے لہٰذا یہ وصیت ہے۔
بدائع الصنائع (2/ 273) میں ہے:
«والمعتبر في العقود معانيها لا الألفاظ»
تبیین الحقائق شرح كنز الدقائق (6/ 182)میں ہے:
«الوصية تمليك مضاف إلى ما بعد الموت) يعني بطريق التبرع سواء كان عينا أو منفعة ….
فتاوی قاضی خان (7/385) میں ہے :
اذا وهب اجنبي لصغير هبةفحق قبض الهبة و القبول للاب .
تبیین الحقائق شرح كنز الدقائق (6/ 182)میں ہے :
«تصح الوصية للأجنبي بالثلث من غير إجازة الوارث ولا تجوز بما زاد على الثلث»
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved