• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ناپاکی کی حالت میں تفسیر چھونے کا حکم

  • فتوی نمبر: 30-114
  • تاریخ: 11 اکتوبر 2023

استفتاء

عرض ہے کہ :

1۔ جب شرعی عذر ہو تو کیا ترجمے  والے  قرآن کریم کو ہاتھ لگا سکتے ہیں ؟

2۔ اور حالت عذر میں قرآن پاک کی کتنی آیات پڑھ سکتے ہیں ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ ترجمہ والے قرآن کو ناپاکی کی  حالت میں ہاتھ نہیں لگا سکتے کیونکہ  قرآن کا ترجمہ چھونے نہ چھونے کے معاملے میں اصل قرآن کی طرح ہے۔  البتہ ترجمے کے ساتھ تفسیر بھی ہو اور تنہا   تفسیر قرآنی عبارت اور ترجمے  سے زائد ہو تو پھر لگا سکتے ہیں لیکن اس صور ت میں بھی قرآنی عبارت اور ترجمے کو ہاتھ لگانا جائز نہ ہو گا۔

2۔ حالت عذر میں تلاوت کی نیت سے ایک آیت یا اس سے زیادہ نہیں پڑھ سکتے ۔اور ایک آیت سے کم میں تفصیل ہے   کہ آیت کا ٹکڑا بشرطیکہ چھوٹی سے چھوٹی آیت یعنی چھ حروف کہ برابر نہ ہو پڑھنے  کے جواز میں اختلاف ہے اور عدم جواز راجح ہے ۔مفردات میں سے ایک ایک  کلمہ پڑھنا بالاتفاق جائز ہے۔

فتاوی عالمگیری  (1/39) پر ہے :

"ولو كان القرآن مكتوبًا بالفارسية يكره لهم مسّه عند أبي حنيفة، وكذا عندهما على الصحيح، هكذا في الخلاصة.” (الفتاوى الهندية

فتاوی شامی (1/176) میں ہے :

(قوله: لكن في الأشباه إلخ) استدراك على قوله والتفسير كمصحف، فإن ما في الأشباه صريح في جواز مس التفسير، فهو كسائر الكتب الشرعية، بل ظاهره أنه قول أصحابنا جميعا، وقد صرح بجوازه أيضا في شرح درر البحار. وفي السراج عن الإيضاح أن كتب التفسير لا يجوز مس موضع القرآن منها، وله أن يمس غيره وكذا كتب الفقه إذا كان فيها شيء من القرآن، بخلاف المصحف فإن الكل فيه تبع للقرآن. اهـ. والحاصل أنه لا فرق بين التفسير وغيره من الكتب الشرعية على القول بالكراهة وعدمه، ولهذا قال في النهر: ولا يخفى أن مقتضى ما في الخلاصة عدم الكراهة مطلقا؛ لأن من أثبتها حتى في التفسير نظر إلى ما فيها من الآيات، ومن نفاها نظر إلى أن الأكثر ليس كذلك، وهذا يعم التفسير أيضا، إلا أن يقال إن القرآن فيه أكثر من غيره اهـ

 

فتاوی شامی (1/172) میں ہے :

(و) يحرم به (تلاوة القرآن) ولو دون آية على المختار (بقصده) فلو قصد الدعاء أو الثناء أو افتتاح أمر أو التعليم ولقن كلمة كلمة حل في الأصح

امداد الفتاوی جدید  (1/406) میں ہے:

سوال (۱۴۲): قدیم ۱۴۵/۱- کتب تفسیر میں جس موقع پر آیت مکتوب ہے اس موقع کو بغیر وضومس کرنا مکروہ ہے یا محرم؟

الجواب :  في غنية المستملي: ويكره أيضا للمحدث ونحوه مس تفسير القرآن وكتب الفقه، وكذا كتب السنن إلى قوله والأصح أنه لا يكره عند أبي حنيفة  ص ۵۷ –

اس سے معلوم ہوا کہ جب غیر قرآن کی عبارت غالب ہو اس کا مس مطلقا   كما هو الظاهر امام صاحب کے نزدیک درست ہے۔ وفي الأخذ به سهولة. ۱۷ صفر ۰۱۳۳۳ (تمه ثالثه صفحه ۱۹)

احسن الفتاوی (2/37) میں ہے:

سوال : جنبی کے لئے کتب حدیث وتفسیر کو چھونا یا پڑھنا یا حدیث وقرآن کا ترجمہ لکھنا یا زبانی پڑھنا شرعا جائز ہے یا نہیں ؟ بینوا توجروا

الجواب باسم ملہم الصواب: جنب کے لئے کتب حدیث وفقہ کوچھونا اور پڑھنا درست ہے مگر خلاف اولیٰ ہے اور کتب تفسیر میں اگر تفسیر غالب ہو تو چھونا درست ہے ورنہ نہیں۔قرآن کو لکھنے کی جواز میں اس صورت میں اختلاف ہے جبکہ کتابت اس طور پر کہ کاغذ کو ہاتھ نہ لگے ، عند الضرورت اسکی گنجائش ہے لیکن کاغذ کو ہاتھ لگانا کسی صورت میں جائز نہیں ، ترجمۂ قرآن کوبھی بے وضوچھونے کے بارے میں فقہاء رحمہم اللہ تعالی نے بحکم قرآن قرار دیا ہے۔

قال في الدر المختار وقد جوز اصحابنا مس كتب التفسير للمحديث ولم يفصلوا بين كون الاكثر تفسيرا او قرآنا ولو قيل به اعتبارا للغالب لكان حسنا قلت لكنه يخالف مامر فتدبر ۔ قال العلامة ابن عابدين ( قوله فتدبر ) لعله يشير إلى أنه يمكن ادعاء تقييد اطلاق المتن بما إذا لم يكن التفسير اكثر فلا ينافي دعوى التفصيل ( ردالمحتار ص 164 ج 1 )

وفي الدر ولانكره كتابة قرآن والصحيفة او للوح على الارض عند الثاني خلافا لمحمد وينبغي أن يقال إن وضع على الصحيفة ما يحول بينهما وبين يده يؤخذ بقول الثاني والا فبقول الثالث قاله الحلبي ( ردالحتار ص 162 ج 1 )

 وفي باب الحيض منه وقراءة قرآن بقصده ومسه ولو مكتوبا بالفارسية في الاصح ( ردالمحتار ص 270 ج 1 )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved