• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

نقد خرید کر آگے ادھار فروخت کرنا

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کےمتعلق کہ  میں لاہور میں رہتا ہوں اور میرا بھائی گاؤں میں رہتا ہے ،وہاں ایک شخص کو جانور کی ضرورت ہوتی ہےجس کی قیمت  مثلا ایک لاکھ ہوتی ہے ، وہ جس سے خریدنا چاہتا ہے وہ صرف نقد دیتا ہے ادھار پرنہیں دیتا ، تو ہم ایسا کرتے ہیں کہ خریدنے والے کو کہہ دیتے ہیں کہ آپ جانور پسند کردیں یا یہ شخص خود ہی  جانور پسند کر کے مجھے بتا دیتا  ہے تو میں جانور والے سے فون پر معاملہ کر کے خود خرید لیتا ہوں، میرا بھائی میری طرف سے وکیل بن کر جانور پر قبضہ کرتا ہے اور گھر لےآتا ہے ، پھر میں اس مذکورہ  شخص کے ہاتھ (یعنی جس کو ادھا ر جانور خریدنا ہوتا ہے) ایک لاکھ 20ہزار پر بیچ دیتا ہوں چھ ماہ کے ادھار پر ۔اس سارے معاملہ میں میرا بھائی صرف میرا وکیل ہوتا ہے، اس کی کوئی اجرت نہیں لیتا ،بلکہ  سارا معاملہ میں بیچنے والے سے فون پر کردیتا ہوں بھائی صرف میرے بھیجے ہوئے پیسے دیتا ہے اور جانور کو اپنے قبضے میں لے لیتا ہے،بالفرض کل کلاں کو اگر کچھ نقصان ہو تو وہ میرا ہی شمار ہو گا،بھائی کا نہیں۔

سوال یہ ہے کہ مذکورہ صورت میں یہ بیس ہزار روپیہ کامنافع درست ہے یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت کا خلاصہ یہ ہے کہ  جس شخص کو جانور کی ضرورت ہوتی ہے وہ  جانور پسند کر کے سائل کو بتا دیتا ہے اور سائل اس جانور کو نقد خرید کر ادھار اپنا نفع رکھ کر اس شخص کو بیچ دیتا ہے ،پس اگر فریقین آپس میں پہلے سے ایک دوسرے کو  اس بات کا پابند نہ کریں کہ سائل کے اس جانور کو خریدنے کے بعد وہ آپس میں اس جانور کا  سودا کریں گے بلکہ دونوں فریق آزاد ہوں کہ آپس میں معاملہ کریں یا انکار کردیں پھر چاہےبعد میں آپس میں سودا کرلیں  تو یہ صورت جائز ہے ،اور اگر فریقین ایک دوسرے کو اس کا پہلے سے  پابند کریں یا ایک دوسرے کو پابند سمجھا جاتا ہو تو یہ صورت ناجائز ہے۔

امداد الفتاوی(3/39)میں ہے:

سوال:  قدیم  ۳/ ۳۹-   عمرو نے زید سے کہا کہ تم مجھ کو یک صد روپیہ کا مال جفت پاپوش منگادو، میں تم سے

صد کا منافع دے کر ادھار ایک ماہ کے واسطے خرید کر لوں گا، یا جس قدر مدت کے واسطے تم دوگے اسی حساب سے منافع دونگا، یعنی پانچ روپے یک صد روپیہ کا منافع ایک ماہ کے واسطے ہے، جب مال آجاوے گا اس وقت مدّت ادھار اور منافع کی معین ہوجاوے گی، اس کے جواب میں زید نے کہا کہ میں منگادوں گا ، مگر اطمینان کے واسطے بجائے یک صد کے دو صد کا رقعہ لکھاؤں گا تاکہ تم خلاف عہدی نہ کرو، عمرو نے منظور کیا؟

الجواب: اس میں دو مقام قابل جواب ہیں ، ایک یہ کہ زید وعمرو میں جو گفتگو ہوئی یہ وعدہ محضہ ہے، کسی کے ذمہّ بحکم عقد لازم نہیں ۔ اگر زید کے منگانے کے بعد بھی عمرو انکار کر دے تو زید کو مجبور کرنے کا کوئی حق نہیں ، پس اگر عرف وعادت میں عمرو مجبور سمجھا جاتا ہو تو یہ معاملہ حرام ہے ورنہ حلال۔اسی طرح عمرو کو اور مثل عمرو  کے زید کو بھی یہ اختیار حاصل ہے کہ وعدہ بیع پر قائم رہنے کی صورت میں منافع کی مقدار میں تغیر وتبدیل کردیں یہ کوئی نہیں کہ سکتا کہ ایک ماہ کے ادھار کی صورت میں پانچ روپے  سیکڑہ نفع کا ٹھہرا تھا ،باقی زیادہ لکھنا یہ بیع ہزل فی مقدار الثمن ہے ،اگر عمرہ کی بد عہدی کی صورت میں بھی زیادہ مقدار واقعی  ثمن سے زیادہ وصول نہ کرے تو جائز ہے ورنہ حرام ہے ،نیز زید پر واجب ہوگا کہ ورثہ کو اس کی اطلاع کردے تاکہ زید کے بعد وہ عمرو کو پریشان نہ کریں ۔(20 محرم 1330ھ)

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved