• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

نقد خریداری میں پیمنٹ کی ادائیگی کا طریقہ

استفتاء

***میں ایک کاسمیٹک کا اسٹور ہےجہاں   کاسمیٹک سے متعلق سامان کی ہول سیل اور ریٹیل خرید و فروخت کی جاتی ہے۔

T.Sکی جانب سے  زیادہ تر خریداری نقد کی جاتی ہے،کبھی ادھار خریداری بھی کی جاتی ہے اور ادھار کی مدت طے ہوجاتی ہے، نقد  خریداری میں ادائیگی کا طریقہ کاریہ ہوتا ہے کہ بل ان سے لے لیا جاتا ہےاور  مال آتے ہی پیمنٹ کردی جاتی ہے،اورا گر پوری پیمنٹ نہ ہوتو  ان سے شیڈول طے کرکے 7,8 دنوں کے اندر ان کے بل کی ادائیگی کر دی جاتی ہےاور کبھی کبھا ر کچھ پیسے زیادہ چلے جائیں تو اسکی کٹوتی اگلے مال سے  ہوجاتی ہے اور حساب برابر ہوجاتا ہےبعض اوقات ایڈوانس رقم دیجاتی ہےاور ایڈوانس کی وجہ سے T.S کو کسی بھی قسم کا ڈسکاؤنٹ نہیں دیا جاتا۔

۱۔نقد خریداری میں پیمنٹ کی ادائیگی کا مذکورہ طریقہ کار شرعا کیسا ہے؟

۲۔ایڈوانس پیمنٹ کی  صورت میں ڈسکاؤنٹ لینا شرعا کیسا ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

۱۔نقد خریداری کی صورت میں پیمنٹ کی ادائیگی کا مذکورہ طریقہ شرعاً درست ہے تاہم  اگر بیچنے ولا  پہلے پیمنٹ لیے بغیر مال سپرد کرنے پر آمادہ نہ ہوتو خریدار پہلے پیمنٹ کرے    اور پھر بیچنے والا مال سپرد کرےاسی طرح اگر بیچنے والا مہلت دینے پر رضا مند نہ ہوتو اسے مہلت دینے پر مجبور کرنا درست نہیں ۔

۲۔ عام حالات میں ایڈوانس پیمنٹ کی صورت میں  ڈسکاؤنٹ لینا جائز نہیں ، البتہ اگر معاملہ استصناع کا ہو یا بیع سلم کا ہو تو پھر ڈسکاؤنٹ لینا درست ہے۔

نوٹ:استصناع اور سلم کی خاص شرائط ہیں جو موقع پر معلوم کی جاسکتی ہیں ۔

الدر مع الرد: (کتاب البیوع،4/560۔561،ط:سعید)

“(ويسلم الثمن أولا في بيع سلعة بدنانير ودراهم) إن أحضر البائع السلعة.وفی الرد: أما في بيع سلعة بثمن فإنما تعين حق المشتري في المبيع، فلذا أمر بتسليم الثمن أولا ليتعين حق البائع أيضا تحقيقا للمساواة.”

وفیہ ایضاً: (کتاب البیوع،5/89،ط:سعید)

“ثم فرع على الأصل بقوله (فيصح) البيع (بشرط يقتضيه العقد) (كشرط الملك للمشتري) وشرط حبس المبيع لاستيفاء الثمن.”

رد المحتار” (5/ 166):

(قوله كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر، وعن الخلاصة وفي الذخيرة وإن لم يكن النفع مشروطا في القرض، فعلى قول الكرخي لا بأس به ويأتي تمامه”. 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 394)

(و) كره (إقراض) أي إعطاء (بقال) كخباز وغيره (دراهم) أو برا لخوف هلكه لو بقي بيده. يشترط (ليأخذ) متفرقا (منه) بذلك (ما شاء) ولو لم يشترط حالة العقد لكن يعلم أنه يدفع لذلك شرنبلالية، لأنه قرض جر نفعا وهو بقاء ماله فلو أودعه لم يكره لأنه لو هلك لا يضمن وكذا لو شرط ذلك قبل الإقراض ثم أقرضه يكره اتفاقا قهستاني وشرنبلالية”

امداد الفتاوی(۳/۲۱)

یہاں یہ دستور ہے کہ بکر قصاب کو کچھ پیشگی روپے دیدے اور گوشت کے دام فی سیر ٹھیرالیے جو بازار کے نرخ سے کطھ کم ہوتا ہے مثلا بازار میں ۴ سیر کا بکتا ہے لیکن ۳ سیر ٹھیرالیا اور گوشت آتا رہا اس کی یاداشت رکھ لی اور ختم ماہ پر حساب کردیا ،اور کمی پیشی پوری کرکے بیباقی کردی اور آئندہ ماہ کے لیے پھر نقد روپیہ دیدیا اور نیا معاہدہ بھاؤ کا کرلیا ،کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے  کے بازار کا بھاؤ ۳، اور ۳ ،اور ۲ سیر ہوجاتا ہے ،مگر یہ مقرر شدہ نرخ بدلہ نہیں جاتا اسکا اگلے مہینہ لحاظ کرکے بھاؤ مقرر کرتے ہیں،قصاب کو یہ نفع ہوتا ہے کہ اس روپیہ سے  بکریاں خریدتا ہے اور گوشت بیچتا ہے ،اس کو کسی دوسرے سے روپیہ قرض لینے کی ضرورت نہیں ہوتی اب عرض یہ ہیکہ کیا یہ جائز ہے؟

الجواب۔یہ معاملہ حنفیہ کے نزدیک ناجائز ہے،اس لیے جو کچھ پیشگی دیاگیا ہے وہ قرض ہے اور یہ رعایت قرض کے سبب ہے اور بیع سلم کہہ نہیں سکتے اس لیے کہ اس میں کم سے کم  مہلت  ایک ماہ کی ہونی چاہیے ،اور امام شافعی کے نزدیک چونکہ اجل شرط نہیں  اس لیے سلم میں داخل ہوسکتا ہے،چونکہ اس میں ابتلاء عام ہےلہذا امام شافعی کے قول پر عمل کی گنجائش ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved