- فتوی نمبر: 22-31
- تاریخ: 10 مئی 2024
- عنوانات: حظر و اباحت > زیب و زینت و بناؤ سنگھار
استفتاء
(1)اگر کسی شخص کی داڑھ خراب ہو اور وہ اس کو صاف کرواکر اس کے اوپر خول چڑھوائے تو اس خول کا کیا حکم ہے ؟یعنی غسل کے وقت اس کو اتارنا لازمی ہے یا بغیر اتارے بھی غسل ہوجاتا ہے؟
(2)اسی طرح کوئی شخص فوت ہو تو وہ خول اتارنا ضروری ہے یا بغیر اتارے ہی تدفین کردیں ۔
(3)اسی طرح نقلی دانت لگوانا جیسے سونے وغیرہ کا یاکسی اور دھات کا خواہ خوبصورتی کےلیے ہو یامجبوری میں ہو جائز ہے؟
(4) کچھ لوگ دانتوں کو ٹیڑھے ہونے کی وجہ سے سیدھے کرتے ہوئےکٹوالیتے ہیں تو ان کا کیا حکم ہے؟
براہ کرم ان مسائل کی وضاحت فرمادیں ۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
(1)اگر خول آسانی سے الگ ہو سکتا ہو تو فرض غسل کے وقت اس کو اتارناضروری ہے اور اگر خول فکس ہو کہ آسانی سے الگ نہ کیا جاسکتا ہوتو اس خول کو اتارے بغیر بھی غسل کرنا درست ہے ۔
(2)اگرخول فکس ہو اور نکالا نہ جاسکتاہو تو بغیر اتارے ہی تدفین کردینا درست ہےلیکن اگر دانت یا خو ل نکالے جاسکتے ہوں تو نکال کر تدفین کریں گے ۔
(3)نقلی دانت لگوانا جائز ہےخواہ مجبوری میں لگوائیں یا محض خوبصورتی کے لیے لگوائیں اسی طرح چاہے کسی بھی دھات کا لگوائیں البتہ سونے کےدانت نہ بنوانا احتیاط اور تقوی کے اعتبار سے بہتر ہے۔
(4) غیر معمولی ٹیڑھے دانتوں کوسیدھے کرتے ہوئے کٹوانا جائز ہے ۔
(1)شامی (1/313)میں ہے:
(يجب)يفرض(غسل كل ما يمكن من البدن بلا حرج مرة)…..لايجب غسل مافيه حرج
كعين…….(و ) لا ( داخل قلفة ) يندب هو الأصح قاله الكمال ، وعلله بالحرج فسقط
الإشكال.
وفي المسعودي إن أمكن فسخ القلفة بلا مشقة يجب وإلا لا. لأنه خلقة كقصبة الذكر وهذا مشكل ؛ لأنه إذا وصل البول إلى القلفة ينتقض الوضوء فجعلوه كالخارج في هذا الحكم وفي حق الغسل كالداخل.
ووجه السقوط أن علة عدم وجوب غسلها الحرج:أي أن الأصل وجوب الغسل إلا أنه سقط للحرج وإنما يرد الإشكال على التعليل بكونها خلقة ، ولهذا قال في الفتح والأصح الأول:أي كون عدم الوجوب للحرج لا لكونه خلقة وقال قبله في نواقض الوضوء بعد ذكره الإشكال، لكن في الظهيرية إنما علله بالحرج لا بالخلقة وهو المعتمد ، فلا يرد الإشكال .
( قوله : وفي المسعودي إلخ )…لأنه إذا أمكن فسخها أي بأن أمكن قلبها وظهور الحشفة منها فلا حرج في غسلها فيجب ، وإلا بأن لم يكن فيها سوى ثقب يخرج منه البول فلا يجب للحرج،لكن أورد في الحلية أن هذا الحرج يمكنه إزالته بالختان ثم قال : اللهم إلا إذا كان لا يطيقه،بأن أسلم وهو شيخ ضعيف.
(1) مریض ومعالج کے اسلامی احکام(84) میں ہے:
مسئلہ :دانت ہلنے کی وجہ سے بعض اوقات سونے کاخول چڑھالیتے ہیں،غسل میں اس کے اتارنے کی ضرورت نہیں۔
(1)فتاوی محمودیہ(16/52)میں ہے:
سوال:۔۔۔۔بوقت ضرورت یہ نقلی دانت اورسونے وغیرہ کاخول جوحقیقی دانت پرچڑھاہوتاہے باہر نکالانہیں جاسکتاہے ایسی حالت میں اگرغسل کیاجائے توکیا غسل ہوجائےگا ؟
الجواب حامداً ومصلیاً:جب کہ اس کونکالانہیں جاسکتاتواس مجبوری کی حالت میں غسل درست ہوجائے گا۱گر خول سونے کانہ ہوتو بہتر ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم۔حررہٗ العبد محمود غفرلہٗ دارالعلوم دیوبند
(2)نہر الفائق (1/ 386) میں ہے:
ينزع عنه ما ليس من جنس الكفن كالفرو والحشو وهذا يفيد أن التكفين فيه ابتداء لا يجوز إلا أن يقال: المراد أنه ليس من جنس المسنون وهو الظاهر فيجوز كذا في (البحر).
(2) احسن الفتاوی4/34) میں ہے:
سوال:ایک آدمی مر گیا مرنے کے بعد اس کے منہ میں مصنوعی دانت تھے جوکہ غسل دینے کے وقت بغیر تکلیف کے نہیں نکل سکتے تھے اگر وہ دانت منہ میں رہ جائیں تو اس میں کوئی شرعی قباحت تو نہیں؟اور اگر دانت قیمتی ہوں اور میت کے منہ سے نہایت تکلیف کے ساتھ نکلتے ہوں تو کیا ایسے دانت کا نکلوانا جائز ہےیا نہیں؟۔۔۔
جواب:۔اگر دانت نکالنا مشکل ہواور زیادہ محنت کرنے میں میت کی بے حرمتی ہو تو اندر ہی چھوڑ دیئے جائیں غسل ودفن میں کوئی محذور نہیں مال کی حرمت سے میت کی حرمت زیادہ ہے۔ حرمة الآدمي اعلى من صيانةالمال لكنه زال احترامه بتعديه كما في الفتح ومفاده انه لو سقط في جو فه بلا تعدلايشق اتفاقا.
(2)آپ کے مسائل اور ان کا حل(4/290) میں ہے:
سوال:میت کے سونے کے دانت نکالنے چاہئیں یااس کے ساتھ دفن کردینا چاہیے(یا کوئی اور مصنوعی دانت ہو؟)
جواب:میت کے مصنوعی دانت اگر نکالے جاسکتےہیں تو ان کو اتار لینا چاہیے۔
(3)رد المحتار( 5/ 373) میں ہے:
قال أبو يوسف : سألت أبا حنيفة عن ذلك في مجلس آخر فلم ير بإعادتها بأسا ( قوله وجوزهما محمد ) أي جوز الذهب والفضة أي جوز الشد بهما.
(3)امداد الاحکام ( 4 /411) میں ہے:
مصنوعی دانت بنوانا اور اس پر سونے کا خول چڑھانا
سونے کا خول چڑھانا مختلف فیہ ہے۔ امام صاحب نے اس کو منع کیا ہے اور صاحبین سے گنجائش منقول ہے پس تقویٰ احتیاط میں ہے اور فتویٰ جواز پر ہے اور بہتر یہ ہے کہ پتھر کے دانت بنوالئے جائیں یا ہلتے ہوئے دانتوں کو سونے کے تاروں سے مضبوط کرلیا جائے خول نہ چڑھایا جائے۔ اور اگر سونے کا خول چڑھانے کے بعد دانت سہولت سے الگ ہوسکیں تو غسل کے وقت ان کو الگ کرکے کلی کرنا واجب ہوگا۔
(3)امداد الفتاوی( 4/ 254) میں ہے:
سوال:دندان کا بنوانا شرعًا درست ہے یا نہیں ، اگر درست ہے تو ضرورت اور زینت دونوں کے واسطے یا صرف ضرورت کے واسطے ؟
الجواب: في الدرالمختار: ولا یشدّ سنه المتحرک بذهب بل بفضة وجوزهما محمد ؒ ……اس روایت سے معلوم ہوا کہ دانت بنوانا شرعًا درست ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ضرورت اور زینت دونوں کے لئے درست ہے؛ کیونکہ ناک بنوانا ظاہر ہے کہ زینت ہی کے لئے ہوگا اور وہ بھی جائز رکھا گیا ہے البتہ اگر زینت کو آلہ فجور بنایا جائے تو اس عارض کی وجہ سے بیشک گناہ ہے۔
(4)مریض و معالج کے اسلامی احکام(364) میں ہے:
جسم میں کوئی پیدائشی عیب ہو یا بعد میں کسی حادثہ کی بناء پر کوئی نقص وعیب واقع ہوگیا ہو تو چونکہ اس زمانہ میں فن جراحت بڑی ترقی پر ہے اور ہلاکت ونقصان کا کچھ خوف نہیں ہوتا اس لیے ان کو دور کرنے کے لیے جو آپریشن کئے جائیں وہ جائز ہوں گے ۔ایسی جراحت کو جراحت برائے اصلاح بدن کہا جاتا ہے ۔بہت زیادہ ٹیڑھے دانت جن کو سیدھا کرنے کی خاطر مستقل تار لگانے کے لیے چار دانت نکالنے پڑتے ہیں وہ بھی اسی ضابطہ کے تحت آتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقد واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved