• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

نشے کی حالت میں طلاق کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علماء کرام مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میرےشوہر نے آج سے 11 ماہ قبل مجھے نشے کی حالت میں ایک طلاق دی جس کے الفاظ یہ ہیں “میں تمہیں اپنے پورے ہوش و حواس  میں طلاق دیتا ہوں “اور پھر ساتھ ہی پانچ دنوں بعد شراب کے نشے میں فون پر ایک مرتبہ یہ کہا کہ” فاطمہ میں تمہیں دوسری مرتبہ طلاق دیتا ہوں “اس کے دو گھنٹے بعد وہ مجھے آکر اپنے گھر لے گئے اور ہم ایک ساتھ رہتے رہے،اس کے بعد کل پھر شراب کے نشے میں  میرے گھر کے باہر آکر بولتے رہے پھر اندر آکر میری والدہ کو گالیاں دینے لگے مجھے چلنے کو کہا تو میں نے انکار کر دیا  تو مجھے مارنے لگےاور اس دوران انہوں نے گھر میں موجود شو کیس کا شیشہ بھی توڑ دیا   جب شور شرابا ہوا تو محلے والوں نے آکر چھڑایا اور انہیں باہر نکالا اس کے بعد گلی میں کھڑے ہو کر  سب محلے والوں کی موجودگی میں اپنے ہوش و حواس میں اپنی بیوی کا نام لے کر یوں  کہا “فاطمہ میں تمہیں طلاق طلاق طلاق دیتا ہوں” تین بار دہرایا ،تینوں مواقع پر انہوں نے ساری باتیں درست کیں  کوئی الٹی سیدھی گفتگو نہیں کی اور تینوں  مرتبہ میرا نام لے کر مجھے طلاق دی اور اپنے ہوش و حواس کا بھی اظہار کیا اب میں ان کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی، اب سوال یہ ہے کہ شریعت مطہرہ کی رو سے اور دین میں اب بھی ہم دونوں میاں بیوی ہیں یا ہمیشہ کے لیے جدائی ہو چکی ہے؟

سائلہ: (بیوی)********

شوہر کا بیان:

میں حلفا یہ بیان دیتا ہوں،آج سے 11 ماہ قبل میں نے اپنی بیوی کو ایک مرتبہ یہ کہا کہ “میں تمہیں طلاق دیتا ہوں” اور دوسری مرتبہ5 دن بعد فون پر یہ کہا کہ میں تمہیں دوسری اور تیسری طلاق دے دوں گا “،اورمیں نے”دیتا ہوں” کہ الفاظ نہیں کہے میں نے صرف دھمکی دی تھی  اس کے بعد میں اسی دن اسے گھر لے آیااور اب تیسرے موقع پر غصے میں جو بھی میرے منہ میں آیا تین یا  چار مرتبہ میں تمہیں طلاق طلاق طلاق طلاق دیتا ہوں میں نے اپنی بیوی کو کہا اور تینوں  مرتبہ میں  نے شراب پی ہوئی تھی ،لیکن تینوں مرتبہ کے الفاظ مجھے اچھی طرح یاد ہیں اور میں نے پورے ہوش و حواس میں یہ الفاظ کہے تھے مجھے اچھی طرح معلوم تھا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہو چکی ہیں اور بیوی شوہر پر حرام ہو چکی ہے لہذا اب نہ صلح ہو سکتی ہے اور نہ ہی رجوع کی گنجائش ہے۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں جب شوہر نے پہلی مرتبہ بیوی سے یہ کہا کہ ” میں اپنے پورے ہوش و حواس میں طلاق دیتا ہوں”  تو یہ الفاظ چونکہ صریح ہیں اس لیے ان سے ایک طلاق واقع ہو گئی اور اس کے پانچ دن بعد فون پر دوسری مرتبہ چونکہ شوہر کا کہنا ہے کہ میں نے یہ الفاظ کہے تھے کہ” میں تمہیں دوسری اور تیسری طلاق بھی دے دوں گا” اس لیے ان الفاظ سے شوہر کے حق میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی البتہ بیوی کا بیان چونکہ یہ ہے کہ شوہر نے کہا کہ “فاطمہ میں تمہیں دوسری طلاق دیتا ہوں “اور طلاق کے معاملے میں بیوی کی حیثیت قاضی کی طرح ہوتی ہے لہذا بیوی کے حق میں دوسری رجعی طلاق بھی واقع ہو گئی ہے اور اس کے بعد چونکہ عدت میں رجوع ہو گیا تھا اس لیے نکاح باقی رہا پھر تیسری مرتبہ جب شوہر نے یہ الفاظ کہے کہ” میں تمہیں طلاق دیتا ہوں طلاق طلاق طلاق ” تو ان الفاظ میں سے پہلے لفظ”میں تمہیں طلاق دیتا ہوں”سے بیوی کے حق میں تیسری طلاق بھی واقع ہو گئی البتہ شوہر کے حق میں “میں تمہیں طلاق دیتا ہوں ، طلاق دیتا ہوں “سے بقیہ دو طلاقیں بھی واقع ہو گئیں۔ ان تینوں موقعوں پر نشے کے باوجود شوہر کا دعوی ہے کہ میں ہوش و حواس میں تھا اور مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے کیا کہا تھااس لیے   طلاقیں واقع ہو چکی ہیں اور بیوی شوہر پر حرام ہو چکی ہے۔

بدائع الصنائع(3/101) میں ہے:

أما ‌الصريح فهو اللفظ الذي لا يستعمل إلا في حل قيد النكاح، وهو لفظ الطلاق أو التطليق مثل قوله: ” أنت طالق ” أو ” أنت الطلاق، أو طلقتك، أو أنت مطلقة ” مشددا، سمي هذا النوع صريحا.

فتاوی عالمگیری(1/470)میں ہے:

‌وإذا ‌طلق ‌الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهداية.

بدائع الصنائع (3/ 295)میں  ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي ‌هو ‌زوال ‌الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله  عز وجل {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة.

ہندیہ (1/353)میں ہے:

طلاق السكران واقع إذا سكر من الخمر أو النبيذ. وهو مذهب أصحابنا رحمهم الله تعالى كذا في المحيط.

رد المحتار(4/432)میں ہے:

أن ‌المراد أن يكون ‌غالب ‌كلامه هذيانا، فلو نصفه مستقيما فليس بسكر فيكون حكمه حكم الصحاة في إقراره بالحدود وغير ذلك لأن السكران في العرف من اختلط جده.

ردالمحتار(4/449)میں ہے:

والمرأة كالقاضي ‌إذا ‌سمعته أو أخبرها عدل لا يحل لها تمكينه.

در المختار مع  رد المحتار  (4/509)میں ہے:

كرر لفظ الطلاق وقع الكل.

(قوله كرر لفظ الطلاق) بأن ‌قال ‌للمدخولة: أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قد طلقتك أو أنت طالق قد طلقتك أو أنت طالق وأنت طالق.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

 

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved