• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

نشے میں طلاق کاحکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سلام کے بعدعرض ہے کہ میرا شوہر روز شراب پیتا ہے شراب کے بعد اس کی بہت بری حالت ہوتی ہے گالیاں دیتا ہے برا بھلا کہتا ہے ویسے تو روز لڑتا ہے لیکن شراب کے بعد حال اور ہی ہوتا ہے۔

جمعرات کی رات میری بہن آئی تھی جب میرا شوہر گھر آیا میں نے اسے کہا کہ دیکھو میری بہن آئی ہوئی ہے کوئی ہنگامہ نہ کرنا کہتا تھا نہیں میں کچھ نہیں کروں گا ان کے سامنے ہی نہیں جاؤں گایہ بالکل ٹھیک تھا پھر اس نے شراب پی لی روٹی کھا لی پھر کہتا ہے کہ میرے سے کسی نے زیادہ پیسے لے لیے ہیں میں اس کے پیچھے جاتا ہوں میں نے کہا نہ جاؤ تمہارے حالات ٹھیک نہیں ہیں کہتے ہیں نہیں گالی دے رہا تھا کہ آدمی نے میرے سے پیسے زیادہ لیےآدمی کو بہت گالیاں دے رہا تھا ۔

خیریہ آ گیا آدمی کو گالیاں دے رہا تھا پھرچلاگیاپھرواپس آگیا،نشہ سر چڑھ گیا  تھا میں سمجھی یہ لیٹ گیا ہے میں اپنی بہن کے پاس آکر بیٹھ گئی اتنے میں یہ آگیا اور لڑنے لگا میری بہن سے کہتا تھا تمہاری بہن ٹھیک نہیں ہےیہ میرے سے لڑتی ہے میرے سے بدتمیزی کرتی ہے میں نے جلدی جلدی اپنے بھائی کو فون کیا کہ بہن کو لینے آ جاؤ وہ بھی شادی شدہ ہے امی کے گھر آئی تھی اتنے  میں یہ زور زور سے بول رہا تھا میں اس کے سامنے نہیں جا رہی تھی کہ اس کو غصہ نہ آئے لیکن وہ میری بہن کو بھی نہیں چھوڑ رہا تھا زور زور سے بول رہا تھا میری بہن گھبرائی ہوئی تھی میں پھر ان کے پاس گئی کہ دیکھو وہ جا رہی ہے اب بس کرو کہتا ہے نہیں مجھے یہ جواب دے گی کہ تم ایسے کیوں ہو میں اس کے سامنے کھڑی تھی اب بس کرو اتنے میں ’’اس نے مجھے طلاق طلاق طلاق‘‘ تین مرتبہ زور زور سے کہا اورکہا چل نکل۔

اور لڑتارہاپھر میں نے کل اس کی بہنوں کو بلایا اس نے ان کے سامنے ایک مرتبہ قرآن اٹھایا کہ میں نے تمہیں طلاق نہیں دی یہ قرآن ہی میرا فیصلہ کرے گا اگر جھوٹا ہوا  میں۔توویسے کہاہوگا میں نے پورے الفاظ نہیں کہے پھر اس کی بہنوں نے مجھے کہا کہ دیکھو وہ شراب کی حالت میں تھا تم چھوڑ دو میں نے کہا نہیں اس نے مجھے چھوڑ دیا ہے میرے شوہر نے پھر قرآن پر ہاتھ رکھا کہ یہ دنیا جہاں کا بادشاہ ہے میں اس کی قسم کھاتا ہوں مفتی صاحب میری نندوں نے میری صلح کروا دی ۔

اب آپ لوگ فیصلہ کریں  آپ جو فیصلہ کرو گے میں وہی کروں گی، میرے ساتھ پانچ سال پہلےطلاق کاواقعہ پیش آیا تھا  اس کا فیصلہ بھی آپ لوگوں نے کیا تھاجوکہ ساتھ لف ہے قرآن پرمیری طلاق نہیں ہوئی تھی مفتی صاحب اگر آپ مجھے آج اورابھی فیصلہ دے دیں گے تومیرے لئے آسانی ہوگی آپ کی مہربانی ہوگی میرا فیصلہ ابھی کر دیں آج ہی مہربانی ہو گی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر نشے کی حالت ایسی تھی کہ اسے کچھ پتہ نہیں چلا کہ  اس نے کیا الفاظ کہے ہیں یا الفاظ کا تو پتہ ہے لیکن ایسی صورت حال تھی کہ نشے کی وجہ سے اسکی زبان سے  اول فول باتیں نکل رہی تھی تو نشے کی ایسی حالت میں بعض اہل علم کے نزدیک طلاق واقع  نہیں ہوتی لہذا اگر عورت مجبوری میں ان اہل علم کے قول پر عمل کرنا چاہے تو کر سکتی ہے۔

فتاوی شامی(4/432)میں ہے:

قوله ( أو سكران ) السكر سرور يزيل العقل فلا يعرف به السماء من الأرض

 وقالا بل يغلب على العقل فيهذي في كلامه ……لكن صرح المحقق ابن الهمام في التحرير أن تعريف السكر بما مر عن الإمام إنما هو في السكر الموجب للحد لأنه لو ميز بين الأرض والسماء كان في سكره نقصان وهو شبهة العدم فيندرىء به الحد

 وأما تعريفه عنده في غير وجوب الحد من الإحكام فالمعتبر فيه عنده اختلاط الكلام والهذيان كقولهماونقل شارحه ابن أمير حاج عنه أن المراد أن يكون غالب كلامه هذيانا فلو نصفه مستقيما فليس بسكر فيكون حكمه حكم الصحاة في إقراره بالحدود وغير ذلك

وفی الدر: ولم يوقع الشافعي طلاق السكران واختاره الطحاوي والكرخي في التاترخانية عن التفريق والفتوى عليه

وفی الشامية: قوله ( واختاره الطحاوي والكرخي ) وكذا محمد بن سلمة وهو قول زفر كما أفاده في الفتح۔ قوله ( عن التفريق ) صوابه عن التفريد بالدال آخره لا بالقاف كما رأيته في نسخ التاترخانية  قوله ( والفتوى عليه ) قد علمت مخالفته لسائر المتون ح وفي التاترخانية طلاق السكر واقع إذا سكر من الخمر أو النبيذ وهو مذهب أصحابنا(4/434)

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved