• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

نشے میں طلاق کاحکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ الله وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص نے گذشتہ منگل کی رات شراب پی تھی اور نشے کی حالت میں دھت ہوگیا،تو اس حالت میں اس نےرات  رات کو اپنی بیوی کو یہ الفاظ دس مرتبہ کہہ دیئے کہ’’ آپ کو میری طرف سے دس طلاقیں‘‘ لیکن صبح اس بات کی اطلاع اس کی بیوی نے دی کہ آپ نے رات نشے کی حالت میں مجھے کئی مرتبہ طلاق دے دی ہے، لہذا اب میں آپ کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔توکیا واقعۃطلاق واقع ہوگئی ہے یا نہیں؟

لڑکے کا حلفی بیان

میں ****  اللہ کو حاضر ناظر جان کر لکھتا ہوں کہ مجھے کچھ ہوش نہ تھی،نشے میں تھا، مجھے میری بیوی نے صبح بتایا تھا کہ آپ نے یہ کچھ رات کو کہا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں طلاق واقع نہیں ہوئی، کیونکہ ہمارے زمانے میں نشہ کی حالت میں دی گئی طلاق کو واقع ماننے سے اکثر زد بیوی بچوں پر ہی پڑتی ہے اور نشہ کا عادی شخص کوئی زجر محسوس نہیں کرتا، لہذا بیوی بچوں کی مجبوری کی وجہ سے ان حضرات کے قول پر عمل کیا جا سکتا ہے جو نشہ کی حالت میں دی گئی طلاق کو واقع نہیں مانتے،  جیسے آگے حوالے میں ذکر ہے حنفیہ میں سے امام طحاوی، امام کرخی اور امام محمد بن سلمہ رحمہم اللہ بھی اسی کے قائل ہیں، اگر ایسے نشہ باز کی بیوی طلاق چاہتی ہو تو وہ عدالت سے نکاح فسخ کروا سکتی ہے۔

و في مسئلة الطلاق خلاف عال بين التابعين و من بعدهم فقال بوقوعه من التابعين سعيد بن المسيب و عطاء و الحسن البصري و إبراهيم النخعي و ابن سيرين و مجاهد و به قال مالك و الثوري و الأوزاعي و الشافعي في الأصح و أحمد في روايةوقال بعدم وقوعه القاسم بن محمد و ربيعة و الليث و أبو ثور و زفر و هو مختار الكرخي والطحاوي ومحمد بن سلمةمن مشائخنا(فتح القدير: 3/ 482)

و يصح طلاق السكران و لو بنبيذ أو حشيش أو أفيون أو بنج زجراً، به يفتی تصحيح القدوري. (تنوير الأبصار و رد المحتار: 3/ 240)

وفي التاترخانيةطلاق السكران واقع وهومذهب أصحابنا.(رد المحتار: 3/ 241)

مذهب الحنفية المنع عن المرجوح حتی لنفسه لكون المرجوح صار منسوخاً و قيده البيري بالعاصي أي الذي لا  رأي له يعرف به معنی النصوص حيث قال: هل يجوز للإنسان العمل بالضعيف من الرواية في حق نفسه نعم إذا كان له رأي، أما إذا كان عامياً فلم أره، لكن مقتضی تقييده بذي الرأي أنه لا يجوز للعامي ذلك، قال في خزانة الروايات: العالم الذي يعرف معنی النصوص و الأخبار و هو من أهل الدراية يجوز له أن يعمل عليها و إن كان مخالفاً لمذهبه، و قد ذكر في حيض البحر أقوالاً ضعيفة في بحث ألوان الدماء ثم قال: و في المعراج عن فخر الأئمة لو أفتی مفت بشئ من هذه الأقوال في مواضع الضرورة طلباً للتيسير كان حسناً. (رد المحتار: 1/ 74)

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved