- فتوی نمبر: 27-132
- تاریخ: 25 جولائی 2022
- عنوانات: عبادات > نماز > امامت و جماعت کا بیان
استفتاء
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک امام صاحب نے عصر کی نماز پڑھائی اور پہلا قاعدہ نہیں کیا اور نہ ہی کسی مقتدی نے امام کوبھولنے کا لقمہ دیا اور امام صاحب نے چار رکعات پوری کرنے کے بعد سلام پھیر دیا اب جب نماز کے بعد امام کوبتایا گیا کہ پہلا قاعدہ رہ گیا ہے تو امام نے دوبارہ نماز کا اعادہ باجماعت کیا ۔
(1) اور جو لوگ پہلی جماعت میں شامل نہ تھے انکو ساتھ شامل نہیں کیا ان سے کہا کہ وہ اپنی نماز الگ پڑھیں کیونکہ وہ پہلی جماعت میں شامل نہیں تھے کیا یہ درست ہے ؟
(2) اور جولوگ پہلی جماعت میں ایک دو یاتین رکعات نکلنے کے بعد آکر شامل ہوئے تھے ان میں سے بعض اپنی نماز پوری کر کے امام کے ساتھ شریک ہوگئے اور بعض اپنی نماز توڑ کر امام کے ساتھ شریک ہو گئے، کیا انکا امام کے ساتھ نماز کے اعادہ میں شامل ہونا درست ہے ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
(1)ہماری تحقیق میں مذکورہ صورت میں جو لوگ پہلی جماعت میں شریک نہیں تھے انہیں دوسری جماعت میں شریک کرنا یا ان کا شریک ہونا درست ہے تاہم چونکہ متعدد اکابرین کا فتویٰ یہ ہے کہ ان کا دوسری جماعت میں شریک ہونا درست نہیں اس لیے بہتر یہ ہے کہ یہ لوگ دوسری جماعت میں شریک نہ ہوں ۔
توجیہ: مذکورہ صورت سے متعلق عربی کتب فقہ میں کوئی صریح جزئیہ تو مذکور نہیں ، اس لیے مذکورہ صورت سے متعلق جواب کا دارومدار ایک اصولی بات پر ہے اور وہ یہ ہے کہ پہلی جماعت کی اور دوسری جماعت کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اس میں اختلاف ہے ایک قول یہ ہے کہ پہلی جماعت فرض ہے اور دوسری اس کے لیے جابر ہے یعنی نقصان کو پورا کرنے والی ہے جس کا ظاہری مطلب یہ ہے کہ دوسری جماعت نفل ہے اور دوسرا قول یہ ہے کہ دوسری جماعت فرض ہے۔چونکہ متعدد اہل علم حضرات نے پہلے قول کو ترجیح دی ہے اس لیے متعدد اکابر اہل علم کا فتویٰ یہ ہے کہ دوسری جماعت میں نئے لوگوں کی شرکت درست نہیں کیونکہ یہ متنفل کے پیچھے مفترض کی اقتداء ہو گی جو کہ جائز نہیں ۔جبکہ دوسرے قول کے پیش نظر نئے آنے والوں کی شرکت درست ہوگی کیونکہ یہ مفترض کی اقتداء مفترض کے پیچھے ہے جو کہ جائز ہے ۔
اس قول کو لینے کی صورت میں یہ اشکال ہو سکتا ہے کہ یہ مرجوح قول ہے اور بلا وجہ راجح قول کو چھوڑنا درست نہیں ، اس کا جواب علامہ رافعی ؒ نے یہ دیا ہے کہ درحقیقت یہ اختلاف محض لفظی ہے کیونکہ پہلی نماز کا فرض ہونا اس صورت میں ہے جب اعادہ نہ کیا جائے اور دوسری کا فرض ہونا اس صورت میں ہے جب اعادہ کر لیا جائے اور اعادہ کی صورت میں جب دوسری فرض ہو گی تو نئے لوگوں کی اقتداء درست ہوگی ۔ ہماری تحقیق کی بنیاد علامہ رافعی ؒ کی اس تطبیق پر ہے اور اس کی نظیر یہ ہے کہ سجدہ سہو کو بھی شرع میں جابر (نقصان پورا کرنے والا ) شمار کیا گیا ہے اس کے باوجود اگر کوئی شخص سجدہ سہو میں یا اس کے بعد کے قعدہ میں آکر شریک ہوتا ہے تو اس کی اقتداء درست ہے۔
(2) جو مسبوقین اپنی نماز پوری کرکے امام کے ساتھ شریک ہو گئے ان کی نماز تو بالاتفاق صحیح ہو گئی۔ اور جن مسبوقین نے نماز توڑ کر امام کے ساتھ شرکت کی ہے ان کے بارے میں وہی تفصیل ہے جو نمبر 1 پر گزر چکی۔
در مختار مع رد المحتار(182,183/2) میں ہے:
وكذا كل صلاة أديت مع كراهة التحريم تجب إعادتها.والمختار أنه جابر للاول
قال الشامي: (قوله والمختار أنه) أي الفعل الثاني جابر للأول بمنزلة الجبر بسجود السهو وبالأول يخرج عن العهدة وإن كان على وجه الكراهة على الأصح ، كذا في شرح الأكمل على أصول البزدوي، ومقابله ما نقلوه عن أبي اليسر من أن الفرض هو الثاني واختار ابن الهمام الأول قال لأن الفرض لا يتكرر، وجعله الثاني يقتضي عدم سقوطه بالأول إذ هو لازم ترك الركن لا الواجب إلا أن يقال المراد أن ذلك امتنان من الله تعالى إذ يحتسب الكامل وإن تأخر عن الفرض لما علم سبحانه أنه سيوقعه اهـ يعني أن القول بكون الفرض هو الثاني يلزم عليه تكرار الفرض لأن كون الفرض هو الثاني دون الأول يلزم منه عدم سقوطه بالأول.
وليس كذلك لأن عدم سقوطه بالأول إنما يكون بترك فرض لا بترك واجب، وحيث استكمل الأول فرائضه لا شك في كونه مجزئا في الحكم وسقوط الفرض به وإن كان ناقصا بترك الواجب، فإذا كان الثاني فرضا يلزم منه تكرار الفرض، إلا أن يقال إلخ فافهم
قال الرافعي: قوله(إلا أن يقال المراد أن ذلك امتنان الخ) وحاصله توقف الحكم بفرضية الأولى على عدم الإعادة ، وله نظائر كسلام من عليه سجود السهو يخروجه خروجا موقوفا ، وكفساد الوقتية وهي المغرب في طريق مزدلفة على عدم إعادتها قبل الفجر، وبهذا ظهر التوفيق وأن الخلاف لفظي ، لأن من قال إن الثانية هي الفرض أراد بعد الوقوع، ولو كان الثاني نفلا لزم أن تجب القراءة في ركعاتها ، وأن لا تشرع الجماعة فيها ولم يذكروه اھ
المبسوط السرخسی(112/2) میں ہے:
فإن سها الإمام في صلاته فسجد للسهو ثم اقتدى به رجل في القعدة التي بعدها صح اقتداؤه، لأن الإمام في حرمة الصلاة بعد، وليس على الرجل سجود السهو فيما يقضي، لأنه ما سها، وإنما يلزمه متابعة الإمام فيما أدرك الإمام فيه.
احسن الفتاویٰ (352/3) میں ہے:
صلوٰۃ معادہ میں شریک ہونے والے کی نماز کی صحت کا قول ارجح واوسع ہے اور قول ِعدم ِ صحت احوط ، کثرت جماعت کی حالت میں نووارد مقتدیوں کے لیے یہ علم حاصل کرنا متعسر ہے کہ یہ جماعت اولیٰ ہے یا معادہ ، لہذا ایسی صورت میں قول عدم صحت میں تنگی اور حرج ظاہر ہے ۔ البتہ کسی مقتدی کو اس کا علم ہو جائے تو اس کے لیے عمل بالاحوط اولیٰ ہے۔
فتاویٰ دارالعلوم دیوبند (48/3) میں ہے:
سوال: اگر نماز جماعت سے ادا کی گئی اور نماز میں کوئی غلطی ایسی سرزد ہوگئی جس سے نماز کے اعادہ کی ضرورت ہوئی اب جو نماز دہرائی جا رہی ہے اس میں نئے نمازی شریک ہو کر اپنی نماز ادا کرسکتے ہیں یا نہیں؟
الجواب: اگر پہلی دفعہ میں نماز بالکل نہیں ہوئی تھی مثلاً باطل ہوئی تھی تو نئے نمازیوں کی نماز بوقت اعادہ کرنے نماز کے ادا ہوگئی اور اگر کسی واجب کے ترک ہو جانے سے اعادہ نماز کا واجب تھا تو نئے نمازیوں کی نماز نہ ہوگی۔
امداد الاحکام (564/1) میں ہے:
سوال: امام نے بجائے دو کے تین سجدے کئے اتفاقاً سجدہ سہو بھی ترک کردیا، بعد میں نماز کا اعادہ کیا، اب کچھ مقتدی ایسے شریک ہوئے جو پہلے نہ تھے، ایسی صورت میں نووارد مقتدیوں کا فرض ادا ہوگا یا نہیں ؟ جناب نے تتمہ امدادالفتاوی صفحہ 21 میں تحریر فرمایا ہے کہ “نووارد کا فرض شریک ہونے میں ادا ہو جائے گا ” لیکن غایۃ الاوطار جلد اول صفحہ 211 میں مترجم نے
وكذا كل صلاة أديت مع كراهة التحريم تجب إعادتها.والمختار أنه جابر للاول لأن الفرض لا يتكرر
کے تحت میں لکھا ہے کہ اس کلیہ سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی نیا مقتدی دوسری بار میں شریک ہوگا تو اس کی نماز نہ ہوگی کیونکہ جب امام کی نماز فرض نہیں تو اقتداء فرض والے کا اس کے پیچھے درست نہ ہوگا، بظاہر دونوں متعارض معلوم ہوتے ہیں، دفع ِ تعارض کی کیا صورت ہوگی؟
الجواب: اس مسئلہ میں اختلاف ہے، راجح یہی ہے کہ نووارد جماعت میں شریک نہ ہو، حضرت مولانا صاحب مدفیوضہم العالی نے بھی اب اسی کو راجح فرمایا ہے۔
کفایت المفتی (135/3) میں ہے:
سوال: فرض نماز کی جماعت میں امام صاحب سے واجب ترک ہو گیا اور سجدہ سہو بھی بھول گئے اس وجہ سے دوبارہ جماعت کی گئی دوبارہ ہونے والی جماعت میں کچھ نمازی جو پہلی جماعت میں شریک نہیں ہوسکے تھے شریک ہوئے اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس پچھلی نماز میں شریک ہونے والوں کی نماز ہوگی یا نہیں؟
الجواب: ان لوگوں کی نماز فرض ادا نہیں ہوئی جو اعادہ والی نماز میں آکر شریک ہوئے اور پہلے وہ شریک جماعت نہ تھے۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved