- فتوی نمبر: 6-15
- تاریخ: 08 جون 2024
- عنوانات: مالی معاملات > شرکت کا بیان
استفتاء
ہم نے ایک کمپنی بنائی ہے، دس حصہ دار بنے ہر ایک نے دس لاکھ روپے کمپنی اکاؤنٹ میں جمع کروائے، اور اس طرح ایک کروڑ روپے اکٹھے ہوئے، اس طرح یہ طے ہوا کہ سارے ہی ورکنگ پارٹنر ہیں۔ پراپرٹی کا کام شروع کیا جائے گا، جو بھی نفع ہو گا اس کو دس حصے میں تقسیم کر دیا جائے گا۔ ابھی پندرہ لاکھ کی خریداری ہوئی اور پھر پراپرٹی سیل ہوئی، ایک لاکھ نفع ہوا۔ (پراپرٹی سیل اس طرح ہوئی کہ ہم نے 15 لاکھ کی پراپرٹی خرید کر 16 لاکھ میں سیل کر دی۔ خریدار نے 5 لاکھ ادا کر دیا اور 11 لاکھ کے لیے 3 ماہ کا وقت لے لیا)، ہر ایک حصہ دار کے حصہ میں 10 ہزار آ گیا۔
1۔ اب کمپنی اکاؤنٹ میں 90 لاکھ بقایا بچا۔ اب ایک اور دوست کمپنی میں شامل ہونا چاہتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ میں آپ کو 10 لاکھ ادا کر دیتا ہوں، اب آپ کو جو بھی نفع آئے آپ اس کو 11 حصہ میں تقسیم کر دینا۔ کمپنی اس کو واضح کرتی ہے کہ اس وقت کمپنی اکاؤنٹ میں 90 لاکھ ہیں اور 10 لاکھ ابھی تین ماہ بعد آئے گا، وہ کہتا ہے کہ مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ کیا شریعت کو اعتراض ہے؟ کیونکہ اب خریداری ہو گی تو پہلے دس حصہ داروں کا 9-9 لاکھ روپے اکاؤنٹ میں ہوں گے اور نئے آنے والے کے دس لاکھ ہوں اور آنے والا نفع برابر تقسیم ہو گا۔
اگر یہ ٹھیک نہیں تو نئے آنے والے کو کس طرح کمپنی میں شامل کیا جا سکتا ہے؟ کیونکہ مارکیٹ میں 10 لاکھ کی جائیداد نہیں ملتی اس لیے کمپنی کو ہر روز ایک دس لاکھ والے حصہ دار کی ضرورت ہے۔ مہربانی فرما کر رہنمائی فرمائیں۔
2۔ یا پھر ایک صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ کمپنی نے 40، 50 لاکھ کی خریدار کی مگر ابھی کوئی پراپرٹی سیل نہیں ہوئی اور ایک نیا حصہ دار 10 لاکھ لے آتا ہے اور کمپنی کا ایک شیئر خریدنا چاہتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے گیارواں حصہ دار بنا لو، کیا اس طرح ہم اس نے پارٹنر کو شامل کر سکتے ہیں؟ یا خرید ہوئی جائیداد کی موجودہ قیمت لگا کر اس کو شامل کیا جائے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ مذکورہ صورت جائز ہے، کیونکہ کمپنی کے موجودہ اثاثے ایک کروڑ ہیں اور دس آدمی شریک ہیں، پلاٹ کے 11 لاکھ کاروبار ہی میں لگے ہونے کی وجہ سے عین کے حکم میں ہیں، اب 10 کی جگہ 11 شریک ہوئے۔
2۔ جائز ہے، اور خریدی ہوئی جائیداد کی قیمت لگا کر اس کی قیمت کو بطور سرمایہ کے کاروبار میں شامل کیا جائے گا۔
لو كان من أحدهما دراهم و من الآخر عروض فالحيلة في جوازه ان يبيع صاحب العروج نصف عرضه بنصف دراهم صاحبه و يتقابضا و يخلطا جميعاً حتی تصير الدراهم بينهما و العروض بينهما ثم يعقدان عليهما عقد الشركة فيجوز. (بدائع الصنائع: 5/ 78)
حنفیہ کے ہاں جواز کی یہ صورت ہے جو اس عبارت میں ہے، لیکن اس پر عمل مشکل ہے جبکہ اس کے بر خلاف مالکیہ کے قول میں قیمت لگا کر مطلقاً جواز موجود ہے، جسے حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے اختیار بھی کیا ہے، اس لیے جواب اسی بنا پر دیا گیا ہے۔
امداد الفتاویٰ میں ہے:
"البتہ اس صورت میں کمپنی قائم کرنے والوں کی طرف سے شرکت بالنفقہ نہ ہو گی، بلکہ بالعروض ہو گی سو بعض ائمہ کے نزدیک یہ صورت جائز ہے:
فیجوز الشركة و المضاربة بالعروض بجعل قيمتها وقت العقد رأس المال عند أحمد في رواية و هو قول مالك و ابن أبي ليلی كما ذكره الموفق في المغني. (5/ 125)
پس ابتلاء عام کی وجہ سے اس مسئلہ میں دیگر ائمہ کے قول پر فتویٰ دے کر شرکت مذکورہ کے جواز کا فتویٰ دیا جاتا ہے۔” (3/ 495)
مالکیہ کی عبارات:
فأما إذا اشتركا في صنفين من العروض أو في عروض و دراهم أو دنانير فأجاز ذلك ابن القاسم و هو مذهب مالك. (بداية المجتهد: 5/ 189)
أما ابن القاسم …. و جوزها في العرضين المختلفين و في العين من واحد و العرض من آخر لسقوط قاعدة الربا. (8/15)
الشركة إذن في التصرف لهما مع أنفسهما و إنما تصح من أهل التوكيل و التوكيل و لزمت بما يدل عرفاً كاشتركنا بذهبين أو ورقين أنفق صرفهما و بهما منها و بعين و بعرض و بعرضين مطلقاً و كل بالقيمة يوم احضر. (مواهب الخليل: 4/ 21)
و قال الإمام مالك لا يشترط كون رأس مال الشركة نقداً و إنما تصح الشركة في الدراهم و الدنانير كما تصح في العروض سواء اتفقا جنساً أو اختلفا و تكون الشركة في العروض مقدرة بقيمتها. (الفقه الإسلامي: 5/ 3893) فقط و الله تعالی أعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved