- فتوی نمبر: 25-59
- تاریخ: 15 مئی 2024
- عنوانات: عبادات > قسم اور منت کا بیان
استفتاء
میرے بھائی کو الرجی کی بیماری تھی اور اس کی بیماری بڑھتی جا رہی تھی میرے والد نے بھائی کی صحت یابی کے لیے منت مانی تھی کہ اگر اس کو آرام آجائے تو وہ جون،جولائی یا اگست کے مہینوں میں سے کسی ایک مہینے کے لگاتار روزے رکھیں گے اور اگر ان روزوں کے درمیان کوئی روزہ چھوٹ گیا تو وہ دوبارہ سے شروع کریں گے۔اب بھائی کو بہت آرام آگیا ہے اور اگست کے شروع سے والد صاحب نے روزے رکھنے شروع کر دیے ہیں۔(1)مسئلہ یہ ہے کہ والد صاحب سے لگاتار روزے نہیں رکھے جائیں گے وہ اندرونی طور پر بہت کمزور ہیں اس لیے ان کے لیے کوئی گنجائش ہوسکتی ہے؟(2)ایسا ہو سکتا ہے کہ کچھ روزے وہ رکھ لیں اور کچھ ان کے حصے کے کوئی اور رکھ لے؟یا اور کوئی گنجائش؟
وضاحت مطلوب ہے کہ بیماری کس درجے کی ہے؟
جواب وضاحت: وہ بہت زیادہ کمزور ہےہمیں خوف ہے کہ اگر وہ لگاتار روزے رکھیں گے تو وہ نہیں رکھ سکیں گے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
(1۔2۔)مذکورہ صورت میں جون، جولائی یا اگست کے مہینوں میں روزے رکھنا ضروری نہیں بلکہ سال کے کسی بھی مہینے میں لگاتار روزے رکھ سکتے ہیں البتہ اگروہ شخص کسی بھی موسم میں ایک مہینہ مسلسل روزے نہیں رکھ سکتا تو وہ فی روزہ پونے دو کلو گندم یا اس کی قیمت فدیہ میں دیدیں۔
فتاویٰ ہندیہ (465/1) میں ہے:قال لله علي أن أصوم رجبا فصام ربيعا الأول مكانه فعلى قول أبي يوسف رحمه الله تعالى يجوز وهو قول أبي حنيفة رحمه الله تعالىامدادالاحکام (137/2) میں ہے:سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین شرع متین کہ ایک آدمی نے نذر کی ہے کہ اے اللہ تعالیٰ میری بلاومصیبت اگردور ہوجائے تو میں تیرے واسطے ہرچاند میں یعنی ہرمہینہ میں پانچ پانچ روزے رکھوں گا، اب وہ بلاومصیبت دورہوگئی ہے، اب وہ شخص ہرمہینہ میں روزے رکھے یانہیں؟ اوراس کے اوپر عمربھرکے روزہ رکھناواجب ہے یانہیں؟ اگرواجب ہوگیاتو اگریہ روزہ ادانہ کرے تو کفارہ دینے سے عمربھر کے روزہ ادا ہوں گے یانہیں؟ اگرادا ہوجائیں تو کتناکفارہ دینے سے ادا ہوگا ، یعنی کیا چیز دے گا اور یہ شخص بیماری کی وجہ سے لاچار ہے، لہٰذا فتویٰ منگوایاجاتاہے؟
الجواب: جب یہ شخص بیماری کی وجہ سے روزہ رکھنے سے عاجز ہے تو اس کو چاہیے کہ ہرماہ میں پانچ روزوں کافدیہ دیدیاکرے یعنی ہرروزے کے عوض صدقہ وفطر کے برابر گیہوںوغیرہ دیدے، یاایک مسکین کوپیٹ بھر کے دو وقت کا کھاناکھلادے کمافی العالمگیرية: ولو أخر القضاء حتى صار شيخا فانيا أو كان النذر بصيام الأبد فعجز لذلك أو باشتغاله بالمعيشة لكون صناعته شاقة فله أن يفطر ويطعم لكل يوم مسكينا على ما تقدم اه وفيه ايضافالشيخ الفاني الذي لا يقدر على الصيام يفطر ويطعم لكل يوم مسكينا كما يطعم في الكفارة وفي المجلد الثاني منه فإن غداهم وعشاهم وأشبعهم جاز سواء حصل الشبع بالقليل أو الكثير كذا في شرح النقاية لأبي المكارمفتاویٰ دار العلوم دیوبند (298,299/6) میں ہے:(سوال) ایک عورت نے نذر کی کہ اگر میرے اولاد ہو ، خدا وند کریم مجھ کو اولاد بخشے تو نو ماہ کے روزے رکھوں گی اب اس کے اولاد ہونے لگی اور نذر کے روزے رکھ نہیں سکتی ، جب روزہ رکھتی ہے بیمار ہوجاتی ہے ، لہذا وہ عورت فدیہ دے سکتی ہے یا نہیں ۔(جواب) اس صورت میں ان روزوں کا رکھنا لازم ہے جس وقت ممکن ہو رکھے اور جب کہ رکھنے سے بالکل نا امید ہوجاوے اس وقت فدیہ کی وصیت کرے ۔مسائل بہشتی زیور (180/2) میں ہے:مسئلہ: کسی نے نذر کرتے وقت یوں کہا محرم کے مہینے کے روزے رکھوں گا تو محرم کے پورے مہینے کے روزے لگاتار رکھنا پڑیں گے اگر بیچ میں حیض کی وجہ سے دس پانچ روزے چھوٹ جائیں تو اس کے بدلے اتنے روزے اور رکھ لے سارے روزے نہ دوہرائے اور یہ بھی اختیار ہے کہ محرم کے مہینہ میں نہ رکھے کسی اور مہینہ میں رکھے لیکن سب لگاتار رکھے۔ کیونکہ محرم کے ایام لگاتار اور متصل ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved