- فتوی نمبر: 33-113
- تاریخ: 30 اپریل 2025
- عنوانات: عبادات > حج و عمرہ کا بیان > وقوف عرفہ و مزدلفہ کا بیان
استفتاء
حج کے ایام میں سعودی حکومت نے منیٰ کے قیام کی جگہ کو مزدلفہ کی حدود میں شامل کیا ہے جس کو نیو منیٰ کا نام دیا گیا ہےاور یہ دراصل مزدلِفہ کی حدود کے اندر ہے،زیادہ تر پاکستان سے جو لوگ پرائیویٹ جاتے ہیں، ان کا قیام نیو منیٰ میں ہی ہوتا ہے، اسی طرح عرفات سے واپسی پر مزدلفہ کے وقوف کے لیے لوگ بالکل مزدلفہ اورمنیٰ کی حدود پر جا کر قیام کرتے ہیں، تاکہ وقوفِ مزدلفہ کے فوراً بعد رمی جمرات کے لیے چلے جائیں اور رش سے بچ جائیں ، جبکہ آج کل کے اعتبار سےمزدلفہ اورمنیٰ کی یہ حدود نیو منیٰ اور منیٰ کی حدود ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ
1۔جو لوگ اس جگہ وقوفِ مزدلفہ کرتے ہیں تو کیا ان کا یہ وقوف صحیح ہے؟ کیونکہ یہ جگہ پہلے مزدلفہ کی حدود تھی، لیکن اب حاکمِ وقت نے انہیں نیو منیٰ قرار دے دیا ہے؟
2۔کیا حاکمِ وقت کو اس بات کا اختیار ہے کہ وہ منیٰ، مزدلفہ اورعرفات کی حدود کو کم یا زیادہ کر سکے؟اگر اختیار ہے تو کیا پھر لوگوں کا مزدلفہ کا وقوف صحیح ہو گا، جو انہوں نے حدودِ مزدلفہ اور منیٰ میں کیا جو کہ اب نیو منیٰ بن چکا ہے؟
3۔اور اگر مزدلفہ کا وقوف صحیح ہوگا تو پھر جو لوگ نیو منی میں قیام کرتے ہیں، ان کا ۱۰,۱۱,۱۲ ذی الحجہ کا قیام کیسے صحیح ہوگا؟کیونکہ منیٰ کا قیام سنت مؤکدہ ہےاور چنداقوال واجب کےبھی ملتے ہیں،منیٰ میں رش اتنا ہوتا ہےکہ کسی دوسرے خیمے میں جاکررات گزارنا ممکن نہیں ہوتا اور انتظامی اعتبار سےبھی وہاں کے منتظمین ایسا نہیں کرنے دیتے اس صورت میں یہ دونوں باتیں کیسے جمع ہوسکتی ہیں کہ کوئی ایک جگہ پر وقوفِ مزدلفہ بھی کرے اور اسی جگہ پرمنیٰ کا قیام بھی کرے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔جو لوگ نیو منیٰ میں وقوفِ مزدلفہ کرتے ہیں ان کا وقوفِ مزدلفہ صحیح ہےکیونکہ درحقیقت نیو منیٰ مزدلفہ ہی ہے۔
2۔اختیار نہیں اور اگر اس نے ایسا کردیا تو اس سے ان جگہوں کی حقیقت نہیں بدلے گی بلکہ وہ بدستور اپنی سابقہ حالت پر برقرار رہیں گی۔
3۔منیٰ میں جگہ کی تنگی اور رش زیادہ ہونے کی وجہ سے مزدلفہ یعنی نیو منیٰ میں قیام کرنا چونکہ ایک مجبوری اور عذر کی وجہ سے ہے لہذا منیٰ کا یہ قیام درست ہوجائے گا لیکن اگر کوئی ہمت کرے اور منیٰ کی حدود میں جاکر وقت گزارسکے تو زیادہ بہتر ہے۔
غنیۃ الناسک(ص:267…271)میں ہے:
وحد مزدلفة ما بين مأزمي عرفة وقرني محسر يمينا وشمالا، ويدخل فيه جميع تلك الشعاب والجبال الداخلة في الحد المذكور وليس المأزمان ولا وادي محسر من المزدلفة، ووادي محسر مسيل بين مزدلفة ومنى ليس من واحد منها ، قال الأرزقي:” وهو خمس مائة ذراع وخمس وأربعون دراعا” كذا في البحر وغيره وفي غاية السروجي: “أنه من منى في الصحيح” اه. ويدل عليه خبر الصحيحين عن ابن عباس رضي الله عنهما ومال في البدائع إلى أنه من مزدلفة، ولذا قال:” ولو وقف به أجزأه مع الكراهة للنهي، وأول محسر من القرن المشرف من الجبل الذي على يسار الذهاب إلى منى”………..(فإذا أتى منى) ومنى شعبٌ طوله نحو ميلين وعرضه يسير والجبال المحيطة بها ما أقبل منها عالية فهو من منى، وما أدبر منها فليس من منى، وحد منى وادي محسر وجمرة العقبة، وليست الجمرة ولا العقبة من منى، بل منى تنتهى إليهما، قال الأزرقي رحمه الله: “ذرع منى ذرع ما بين جمرة العقبة ومحسر سبعة آلاف ذراع ومائتا ذراع” وعن عطاء: “حد منى رأس العقبة مما يلي منى إلى محسر”خلافا للمحب الطبري ” رحمه الله حيث قال: “العقبة كلها من منى” وكذا الجمرة وعليه المالكية لقول عمر بن الخطاب رضي الله عنه: “لا يبيتن أحد من الحجاج ليالي منى وراء العقبة”.
مختصر مسنون حج و عمرہ،مصنفہ ڈاکٹر مفتی عبد الواحد صاحبؒ(ص:119)میں ہے:
رش کے زیادہ ہونے اور جگہ کی تنگی کی وجہ سے سعودی حکومت کچھ حجاج کو مزدلفہ میں ٹھراتی ہےاس کی گنجائش ہے البتہ ان لوگوں میں سے کوئی ہمت کرے اور منیٰ کی حدود میں جاکر وقت گزارسکے تو زیادہ ثواب کی بات ہےکہ سنت و استحباب پر بھی عمل ہوجائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved