• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

NHSبرمنگھم کے محکمہ صحت کی طرف سے ملنے والے فنڈ lump sum death benefit (موت پر ملنے والا یکمشت نفع) کی وراثت کا حکم

استفتاء

عرض یہ ہے کہ میرے چھوٹے بھائی ***ولد*** کا انتقال 20 مارچ 2020 کو برمنگھم (برطانیہ) میں ہوا۔ مرحوم وہاں کے محکمہ صحت (NHS) میں  ملازم تھے۔ مسئلہ یہ در پیش ہے کہ مرحوم کو ملنے والے فنڈز اور بقایا جات کی تقسیم کیسے ہوگی ؟ نیز یہ فنڈز اور بقایا جات اس لیے بھی وصول ہوئے ہیں کہ مرحوم کی تنخواہ سے ان کی کٹوتی ہوئی ہے ۔اور فنڈز بیوہ کے نام جاری ہوئے ہیں ۔ فنڈز کی تفصیلات ساتھ منسلک ہیں ۔ وارثین میں بیوہ،والد،والدہ اور دو بچیاں شامل ہیں ۔

نیز مرحوم کی بیوہ ابھی برمنگھم میں ہی ہیں اور انہوں نے مرحوم کے ایک دوست کو ثالث مقرر کیا ہے کہ ثالث جو فیصلہ کرے بیوہ  اس طریقے سے فنڈ کو تقسیم کرنے کے لیے تیار ہیں ۔ ثالث نے کہا ہے کہ میں مفتیانِ کرام سے پوچھوں گا جو وہ فیصلہ کریں گے وہی میرا فیصلہ ہو گا ۔

دارالافتاء کے واٹس ایپ نمبر کے ذریعے  بیوہ سے  مندرجہ ذیل وضاحت لی گئی:

ہمارے دار الافتاء میں ***ولد ***صاحب کی وراثت کی تقسیم سے متعلق ایک سوال ان کے بھائی شیر سلمان صاحب کی طرف سے آیا ہے جس میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ آپ  نے "مرتضی "صاحب جو کہ ***صاحب کے دوست ہیں ان  کو ثالث مقرر کیا ہے کہ وہ  جو فیصلہ کریں  آپ اس پر  راضی ہیں ۔ کیا یہ بات درست ہے ؟ اس بارے میں اپنا موقف فراہم کر دیں ۔

 بیوی کا مؤقف :

آپ کے سوال کا جواب ہاں میں ہے ۔ میں نے مسٹر مرتضی کے سہولت کار بننے پر رضامندی ظاہر کی ہے ۔

ثالث کا بیان :

مجھے ثالث مقرر کیا گیا ہے اور جو شرعی حکم ہو گا  اس کے مطابق میں فیصلہ کرنے کے لیے تیار ہوں۔

کمپنی کی طرف سے ملنے والے فنڈ کی تفصیل:

مرحوم کو ملنے والے فنڈ کا نام "lump sum death benefit "(موت پر ملنے والا یکمشت نفع)ہے۔ جس کی تفصیل کمپنی کی ویب سائٹ پر موجود مواد کے مطابق درج ذیل ہے :

There is no automatic lump sum entitlement in the 2015 Scheme but you do have the option of receiving a retirement lump sum by exchanging part of your pension. If you do this you will receive £12 of retirement lump sum for every £1 of pension exchanged.

ترجمہ: 2015 اسکیم میں کوئی خودکار یکمشت رقم نہیں ہے لیکن آپ کے پاس اپنی پنشن کے کچھ حصے کا تبادلہ کرکے ریٹائرمنٹ یکمشت وصول کرنے کا اختیار ہے۔ اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو آپ کو پنشن کے ہر £1 (ایک پاؤنڈ) کے بدلے ریٹائرمنٹ کی یکمشت £12 (12 پاؤنڈ) ملے  گی۔

مذکورہ بالا اقتباس سے حاصل ہونے والے امور:

  • یہ اسکیم اختیاری ہے۔
  • ملازم کی پنشن سے اس کی کٹوتی ہوئی ہے۔
  • یہ اسکیم اس پراویڈنٹ فنڈ کی طرح ہے جس میں کٹوتی اختیاری ہوتی ہے۔

نوٹ: کمپنی کی ویب سائٹ اور رہنما کتابچے میں  اس بات کا ذکر نہیں ہے کہ کمپنی اس فنڈ کے لیے  کاٹی گئی رقم کے ساتھ اپنی رقم شامل  کرکے اس کو  کاروبار میں لگاتی ہے یا نہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں وفات کے وقت  جو کچھ مرحوم کی ملکیت میں تھا  بشمول کمپنی کی طرف سے ملنے  والا فنڈ شرعی حصوں کے اعتبار سے ورثاء میں تقسیم ہوگا۔ جس کی تفصیل یہ ہے کہ ترکہ کے 27 حصے کیے جائیں گے جن میں سے 4,4 حصے (%14.814فی کس ) والد اور والدہ کو ، 3 حصے (%11.111) بیوہ کو اور 8,8 حصے (%29.629فی کس)ہر بیٹی کو ملیں گے۔

توجیہ: پراویڈنٹ فنڈ میں عموماً تین طرح کی رقمیں ہوتی ہیں ۔ (1) ملازم کی تنخواہ سے کی جانے والی جبری یا اختیاری کٹوتی (2)محکمہ کی طرف سےکیا جانے والا  اضافہ (3) دونوں کے مجموعہ پر بنام سود ملنے والی رقم ۔

پہلی رقم چونکہ  ملازم کی تنخواہ  کا حصہ ہے اس  لیے اس کا لینا بلا شبہ جائز  ہے ۔ دوسری رقم کو بعض اہل علم نے ہدیہ کہا ہے اور بعض نے اجرت کہا ہے ۔بہ ہر دو صورت اس کا لینا بھی بلا شبہ جائز ہے ۔ تیسری رقم میں جبری اور اختیاری کا فرق ہے ۔ اگر ملازم کی تنخواہ سے کٹوتی جبری ہو تو اس کا لینا بھی جائز ہے اور اگر کٹوتی اختیاری ہو تو اس میں سود کا شبہ ہے اس لیے بہتر یہ ہے کہ ملازم وہ رقم یا تو وصول نہ کرے اور اگر وصول کر لے تو صدقہ کر دے البتہ استعمال کی بھی گنجائش ہے۔سوال میں مذکورہ صورت میں یہ تیسری رقم نہیں ہے جس میں جبری اور اختیاری کا فرق ہو بلکہ پہلی دو رقمیں ہیں جن کا لینا بلا شبہ جائز ہے ۔ لہذا مذکورہ فنڈ لیا جا سکتا ہے اور ہمارے نزدیک اجرت والا پہلو راجح ہونے کی وجہ سے یہ فنڈ بھی شرعی حصوں کے اعتبار سے ورثاء میں تقسیم ہو گا ۔

تقسیم کی صورت درج ذیل ہے:

2724

بیوہوالدوالدہ2بیٹیاں
8/16/1+عصبہ6/13/2
34416
3448+8

جواہر الفقہ(3/285) میں ہے:

جبری پراویڈنٹ فنڈ میں ملازم کی تنخواہ سے جو رقم ماہ بماہ کاٹی جاتی ہے اور اس پر ہر ماہ جو اضافہ محکمہ اپنی طرف سے کرتا ہے پھر مجموعہ پر جو رقم سالانہ بنام سود جمع کرتا ہے شرعاً ان تینوں رقموں کا حکم ایک ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ سب رقمیں در حقیقت تنخواہ ہی کا حصہ ہیں اگرچہ سود یا کسی اور نام سے دی جائیں لہٰذا ملازم کو ان کا لینا اور اپنے استعمال میں لانا جائز ہے ان میں سے کوئی رقم بھی شرعاً سود نہیں۔ البتہ پراویڈنٹ فنڈ میں رقم اگر اپنے اختیار سے کٹوائی جائے تو اس پر جو رقم محکمہ بنام سود دے گا اس سے اجتناب کیا جائے کیونکہ اس میں تشبہ بالربا بھی ہے اور سود خوری کا ذریعہ بنالینے کا خطرہ بھی، اس لیے خواہ وصول ہی نہ کریں یا وصول کرکے صدقہ کردیں۔

جواہر الفقہ(3/278) میں ہے:

جس وقت محکمہ اپنا یہ واجب الادا دین ملازم کو ادا کرتا ہے اور اس میں کچھ رقم اپنی طرف سے مزید ملا کر دیتا ہے ( یہ مزید رقم خواہ وہ ہو جو محکمہ ماہ بماہ ملازم کے حساب میں جمع کرتا ہے اور خواہ وہ ہو جو سالانہ سود کے نام سے اس کے حساب میں جمع کی جاتی ہے ) تو یہ بھی محکمہ کا اپنا یکطرفہ عمل ہے کیونکہ اول تو ملازم نے اس زیادتی کے ملانے کا محکمہ کو حکم نہیں دیا تھا اور اگر حکم دیا بھی ہو تو اس کا یہ حکم شرعاً معتبر نہیں اس لئے کہ یہ حکم ایک ایسے مال سے متعلق ہے جو اس کا مملوک نہیں ہے ۔ بنا بریں محکمہ پراویڈنٹ فنڈ کی رقم پر جو زیادتی اپنی طرف سے دے رہا ہے اس پر شرعی اعتبار سے ربا کی تعریف صادق نہیں آتی  خواہ محکمہ نے اس کو سود کا نام لیکر دیا ہو۔

اب یہ سوال رہ جاتا ہے کہ جب یہ زیادتی سود نہیں ہے تو فقہی طور پر اسے کیا کہا جائے گا اس کا جواب یہ ہے کہ یہ زیادتی فقہی لحاظ سے دو معاملات میں سے کسی ایک میں داخل ہو سکتی تھی (۱) یا تو اسے محکمہ کا تبرع کہا جاتا، کہ تنخواہ کی ادائیگی کے وقت کچھ رقم اس نے اپنی طرف سے بطور انعام ملازم کو دے دی ہے لیکن اس پر یہ اشکال ہوتا ہے کہ اگر یہ تبرع ہے تو پھر ملازم کو یہ حق نہ ہونا چاہیے کہ وہ اس زیادتی کو بزور عدالت وصول کر سکے حالانکہ موجودہ قوانین کے تحت ملازم کو اسے بزور قانون وصول کرنے کا حق حاصل ہے اس لئے اسے تبرع کہنا مشکل ہے، لہذا دوسری صورت ہی متعین ہے کہ اسے اجرت کا جزو مؤجل قرار دیا جائے ، اس پر یہ  اشکال ہو سکتا ہے کہ یہ جز عقد کے وقت مجہول ہوتا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ یہ جہالت مفضی الی المنازعہ نہیں ہے جو مفسد عقد قرار پائے ۔

احسن الفتاویٰ(7/50) میں ہے:

پراویڈنٹ فنڈ کے اضافات کو سود اس لئے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ اصل تنخواہ سے زائد اور بدل اجل یا اجرت مملوکہ پر زیادتی نہیں، بلکہ ابتداء عقدہی سے بوجہ اجل اصل تنخواہ میں اضافہ ہے اور کل اضافات اصل تنخواہ میں شمار ہو کر سب کا مجموعہ ابتداء عقدہی سے بدل عمل ہے ، بوجہ تاجیل بدل میں اضافہ بلا شبہہ جائز ہے ۔ کما حررت في رسالتي "زيادة البدل لاجل الاجل” ان اضافات کی شرح شروع ہی سے متعین ہوتی ہے اس لئے فساد جہالت بھی نہیں۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔

جواہر الفقہ (3/278) میں ہے:

احکام مذکورہ کی جوعلت اوپر ذکر کی گئی ہے اس کی رو سے جبری اور اختیاری دونوں قسم کے پراویڈنٹ فنڈ کا حکم یکساں معلوم ہوتا ہے تنخواہ محکمہ کے جبر سے کٹوائی گئی ہو یا اپنے اختیار سے ،دونوں صورتوںمیں اس زیادہ رقم کا لینا سود میں داخل نہیں لیکن اختیاری ہونے کی صورت میں تشبہ بالربو بھی ہے اور خطرہ بھی کہ لوگ اس کو سود خوری کا ذریعہ بنالیں اس لیے اختیاری صورت میں اس پر جو رقم بنام سود دی جاتی ہے اس سے اجتناب کیاجائے خواہ محکمہ سے وصول نہ کر ے یا وصول کرکے صدقہ کردے ‘‘

مسائل بہشتی زیور(2/276) میں ہے:

البتہ پراویڈنٹ فنڈ میں جو رقم اپنے اختیار سے کٹوائی جائے تو اس پر جو رقم محکمہ سود کے نام پر دے گا اس سے اجتناب کیا جائے کیونکہ اس میں سود کا شبہ ہے۔

احسن الفتاویٰ (9/301) میں ہے:

سوال:پراویڈنٹ فنڈ میں وراثت جاری ہوگی یا نہیں؟

جواب:پراویڈنٹ فنڈ در اصل تنخواہ ہی کا ایک حصہ ہوتا ہے لہٰذا اس میں بھی وراثت جاری ہوگی۔

نوٹ:حضرت ڈاکٹر صاحب نے مسائل بہشتی زیور میں پراویڈنٹ فنڈ کو ہدیہ کہا ہے اس اعتبار سے بظاہر اس میں وراثت  نہیں جاری ہوگی لیکن حضرتؒ       کے تصدیق شدہ فتاویٰ میں وراثت جاری کی گئی ہے ہمارے اس جواب کی بنیادحضرتؒ کے تصدیق شدہ فتاویٰ ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved