• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

نکاح کی تاریخ تحریری طور پر طے کی گئی ، اس سے نکاح منعقد تو نہیں ہو گیا؟

استفتاء

میرے ہونے والے سسرال میں میرے نکاح کی تاریخ طے کرنے کے بعد اس کی ایک تحریر لکھی گئی تھی ، اور یہ تحریر لکھتے ہوئے دو گواہ (میرے ابو یعنی میرے وکیل ، میرا منگیتر ، اور میرے منگیتر کے ابو) بھی موجود تھے ، اس تحریر کی آخری دو لائنوں سے لگ رہا ہے کہ میرا اور میرے منگیتر کا نکاح ہو گیا ہے ، کیونکہ نکاح کے فرائض دو ہی ہیں ، دو گواہ اور ایجاب و قبول ، اور تحریر میں سب کی رضا تھی ، اور تحریر میں ماضی کا صیغہ استعمال ہوا ہے ، ویسے شادی 31 اکتوبر 2021 کو ہے ، براہ کرم فتوی دیدیں کہ  نکاح ہو گیا ہے یا نہیں ؟ کیونکہ دو مولانا صاحب کے نزدیک ہوگیا ہے ، اور دو کے نزدیک نہیں ہوا ، جبکہ ایک مفتی صاحب نے بھی کہا ہے کہ نہیں ہوا۔

تحریر مندرجہ ذیل ہے:

بسم اللہ الرحمن الرحیم:  میں**ہاشمی اپنے بیٹے** ہاشمی کا نکاح بروز اتوار بتاریخ  31  اکتوبر  2021، تمام فیملی کے مشورے سے طے کرلیا ہے ۔

**ہاشمی ہمراہ شیمہ*** ، نکاح طے کیا ہے ، اللہ تعالٰی اس میں خیروبرکت عطاء فرمائے ۔ آمین .

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

سوال میں مذکور تحریر سے نکاح منعقد نہیں ہوا کیونکہ اس تحریر میں ایجاب و قبول کے الفاظ نہیں ہیں بلکہ مستقبل کی تاریخ میں نکاح کرنا طے کرلیا ہے۔ نیز اگر اس تحریر میں ایجاب و قبول کے الفاظ ہوتےبھی تو عاقدین کے مجلس میں حاضر ہونے کی صورت میں محض تحریر سے نکاح منعقد نہ ہوتا بلکہ ایجاب و قبول کے الفاظ زبان سے ادا کرنا ضروری ہوتے ہیں۔ نیز اس میں گواہ بھی پورے نہیں ہیں کیونکہ جب لڑکا یا لڑکی مجلس نکاح میں موجود نہ ہو تو ان کا وکیل گواہ نہیں بن سکتا اور مذکورہ صورت میں لڑکی مجلس میں موجود نہیں جس کی وجہ سے ان کا وکیل گواہ نہیں بن سکتا۔

الہدایہ فی شرح البدایہ (2/1، اول کتاب النکاح) میں ہے:قال (النكاح ينعقد بالايجاب والقبول بلفظين يعبر بهما عن الماضي) … (و ينعقد بلفظين يعبر باحدهما عن الماضي و الآخر عن المستقبل مثل ان يقول: زوجني، فيقول: زوجتك)رد المحتار (83/4) میں ہے:”قوله : (ولا بكتابة حاضر) فلو كتب تزوجتك فكتبت قبلت لم ينعقد . بحر . والأظهر ان يقول : فقالت قبلت الخ ، اذالكتابة من الطرفين بلا قول لاتكفي ولو في الغيبة .“درمختار (102/4) میں ہے:”(ولو زوج بنته البالغة) العاقلة (بمحضر شاهد واحد جاز ان) كانت ابنته (حاضرة) لانها تجعل عاقدة (والا لا) الاصل ان الآمر متي حضر جعل مباشرا“حیلہ ناجزہ (طبع قدیم، ص:20) میں ہے:”ایجاب و قبول غائب کے لئے تو کتابت سے بچند شرائط درست ہے مگر حاضر کے لئے کسی حال میں بھی محض کتابت سے ایجاب و قبول درست نہیں‘‘فقہ اسلامی (مؤلفہ:ڈاکٹر  مفتی عبدالواحد صاحب نوراللہ مرقدہ، ص:6) میں ہے :’’مسئلہ: مرد نے عورت کو لکھ کر بھیجا کہ میں نے تمہارے ساتھ نکاح کیا۔ عورت نے جواب میں تحریر لکھ کر بھیجی کہ میں نے قبول کیا تو اس سے نکاح نہیں ہوا۔ یہی حکم اس وقت ہے جب مرد و عورت دونوں ایک مجلس میں موجود ہوں اور وہ اس طرح محض لکھ کر ایجاب و قبول کریں کیونکہ دونوں طرف سے محض کتابت کافی نہیں۔ اسی طرح مرد کی تحریر کے جواب میں عورت اگر زبان سے ہی کہہ دے کہ میں نے قبول کیا تب بھی نکاح نہیں ہوگا۔‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved