• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

نکاح میں باپ کی جگہ چچا کا نام لینے سے نکاح کاحکم

استفتاء

عرض یہ ہے کہ میرے خالہ زاد بھائی کا نکاح میرے ماموں کی بیٹی سے پچھلے دنوں ہوا ہےجس میں ہمیں کچھ شبہات ہیں نکاح کے وقت لڑکی کے والد کے بجائے لڑکی کے چچا کا نکاح نامہ میں لکھا بھی گیا زبانی اقرار میں بھی لڑکی کے چچا کا نام پکارا گیاکیونکہ  بچپن سے چاچا نےہی لڑکی کو پالا ہے لڑکی کا بے فارم چچا کے نام پر بنا ہوا ہے، سارا خاندان اس کو اس کے باپ سے جانتا پہچانتا ہے۔

اسی سلسلے میں کافی لوگوں بشمول علماء حضرات نے کہا ہے کہ یہ نکاح ہوا ہی نہیں کیونکہ  نکاح کے وقت اصل باپ کا نام پکارا جانا لازمی ہے،مہربانی فرما کے اس سلسلے میں ہماری رہنمائی فرمائیں اور ساتھ ہی ساتھ ایک تحریری فتوی بھی دیں تاکہ ہم اس مسئلے کا حل کرا سکے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر یہ لڑکی اپنے چچا کے نام سے بھی جانی پہچانیجاتی تھی یا کم ازکم گواہوں کو معلوم تھا کہ فلاں لڑکی کا نکاح ہورہا ہے تو نکاح کے وقت ولدیت میں چچا کا نام ذکر کرنے سے بھی نکاح ہو جائے گاکیونکہ نکاح کے وقت لڑکی کے والد کا نام اس لیے جاتا ہے تاکہ گواہوں کو پتہ لگ جائے کہ نکاح کس کا ہو رہا ہے،چنانچہ اگر والد کا نام ذکر کیے بغیر بھی گواہوں کو یہ معلوم ہو کہ فلاں لڑکی  کا نکاح کیا جارہا ہے تو اصل والد کا نام لینا بھی ضروری نہیں۔

فتاویٰ شامی(4/87)میں ہے:

ومن شرائط الايجاب والقبول ،اتحاد المجلس…..ولاالمنکوحة مجهولة وفي الشامية تحت قوله (ولاالمنکوحة مجهولة )….قلت وظاهره أنها لو جرت المقدمات على معينة وتميزت عند الشهود أيضا يصح العقد وهي واقعة الفتوى لأن المقصود نفي الجهالة وذلك حاصل بتعينها عند العاقدين والشهود وإن لم يصرح باسمها كما إذا كانت إحداهما متزوجة ويؤيده ما سيأتي من أنها لو كانت غائبة وزوجها وكيلها فإن عرفها الشهود وعلموا أنه أرادها كفى ذكر اسمها وإلا لا بد من ذكر الأب والجد أيضا

فتاوی دیوبند(7/101)میں ہے:

(سوال ۱۳۱)  ایک  لڑکی کا باپ مرگیا‘ اس کی ماں نے اپنے شوہر کے حقیقی بھائی سے نکاح کرلیا اس لڑکی کا نکاح اس کے چچا یعنی سوتیلے باپ کی اجازت سے ہوا اور بوقت نکاح بجائے نام اصل باپ کے سوتیلے باپ کا لیا گیا‘ پس  اس صورت میں  یہ نکاح صحیح ہوایا نہیں ؟(الجواب )  ظاہر  یہ ہے کہ یہ نکاح صحیح ہوگیا‘  اگرچہ درمختار کی ایک عبارت سے ایسا مفہوم ہوتا ہے کہ ایسی غلطی میں نکاح صحیح نہیں ہوتا وہ عبارت یہ ہے  غلط وکیلہا بالنکاح فی اسم ابیہا بغیر حضورہا لم یصح للجہالۃ (۱)الخ  اس پر  علامہ شامی نے یہ لکھا ہے

  قولہ لم یصح لان الغائبۃ یشترط ذکر اسمہا واسم ابیہا وجد ہا و تقدم انہ اذا عرفہا الشہود یکفی ذکر اسمہا فقط خلافا لابن الفضل و عند الخصاف یکفی مطلقا والظاہراتہ فی مسئلتنا لا یصح عند الکل لان ذکر الاسم وحدہ لا یصرفہا عن المراد الی غیرہ بخلاف ذکر الاسم منسوبا الی اب اخر فان فاطمۃ بنت احمد لا تصدق علی فاطمۃ بنت محمد تامل وکذا یقال فیما لو غلط فی اسمہا (۲)الخ  شامی

لیکن  جواب اس کا یہ ہے کہ اول تو درمختار کے اس قول للجہالۃ سے معلوم ہوتا ہے کہ علت عدم جواز نکاح کی غلطی مذکور میں جہالت ہے جو صورت مسئولہ میں مفقود ہے دوسرے درمختار کا مسئلہ بصورت غلطی کے فرض کیا گیا ہے کہ وکیل نے غلطی سے نام بدل دیا‘ اور  صورت مسئولہ میں غلطی سے ایسا نہیں کیا گیا بلکہ بر بناء علی المعروف والشہرۃ ایسا کیا گیا‘ کیونکہ عرف میں والدہ کے شوہر ثانی کو باپ کہا جاتا ہے غرض جورفع  جہالت ہے وہ اس صورت میں حاصل ہے‘ کیونکہ مطلب اس نسبت کا یہ ہے کہ فلاں لڑکی جو فلاں شخص کی تربیت میں ہے اور فلاں لڑکا  جو فلاں شخص کی تربیت میں ہے ان کا عقد ہوا ہے بلکہ عجب نہیں کہ اصل باپ کی طرف نسبت کرنے میں وہ  تعرف نہ ہو جو اس نسبت میں حاصل ہے  اور مقصود اصلی رفع جہالت ہی ہے جیساکہ شامی میں درمختار کے اس قول  ولا المنکوحۃ مجہولۃ کے تحت میں ہے  قلت و ظاہرہ انہا لوجرت المقدمات علی معینۃ و تمیزت عند الشہود ایضا یصح العقد و ہی واقعۃ الفتوی لان المقصود نفی الجہالۃ وذلک  حاصل بتعینہا عند العاقدین والشہود وان لم یصرح باسمہا کما اذا کانت احد اہما متزوجۃ و یوئدہ ما سیاتی من انہا لو کانت غائبۃ و زوجہا وکیلہا فان عرفہا الشہود و علمہ انہ ارادہا کفی ذکر اسمہا والا لا بد من ذکر الاب والجد ….الحاصل صورت مسئولہ میں نکاح منعقد ہو گیا ۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved