• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

نکاح اندراج کی اجرت کاحکم

استفتاء

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

جناب حضرت صاحب! میری بیٹی کا نکاح مورخہ 23-4-18 کو ہوا، نکاح ہماری مسجد کے امام و خطیب حضرت مولانا محمد جمیل اجمل صاحب نے پڑھایا۔ ان کے پاس نکاح رجسٹر نہیں  ہے، نکاح رجسٹر ہماری مسجد کے ایک نمازی محی الدین صاحب کے پاس ہے، نکاح اندراج کے بعد اس نے کہا کہ فیس ادا کر دیں ، میرے سمدھی نے اسے دو ہزار روپے دیے تو اس نے کہا کہ فیس آٹھ ہزار روپے چلتی ہے مگر بچی کا باپ میرا نمازی بھائی ہے اس لیے پانچ ہزار روپے دے دیں ، آخر کار تین ہزار طے ہوئی۔ اس نے ایک ہزار روپے مولانا محمد جمیل اجمل صاحب کو دے دیے اور دو ہزار خود رکھ لیے۔

سوال یہ ہے کہ نکاح اندراج کے لیے اتنے پیسوں  کا مطالبہ کرنا شرعی طور پر جائز ہے جبکہ نکاح اندراج کی سرکاری فیس کوئی نہیں  ہے، صرف بازار سے رجسٹر خریدنا پڑتا ہے اور میونسپل کمیٹی دفتر سے مہر لگوانا پڑتی ہے، صرف اتنا خرچہ ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

نکاح پڑھانے اور اندراج کروانے کی فیس (اجرت) لینا جائز ہے اور اجرت کا خرچے کے مطابق ہونا ضروری نہیں ۔ رہا یہ سوال کہ کتنی اجرت لینی چاہیے؟ یہ فریقین کی باہمی رضامندی پر منحصر ہے۔ اگر کسی مقدار پر اتفاق نہ کیا گیا ہو تو اس علاقے کے عرف و رواج کے مطابق اجرت دینی ہو گی۔

مذکورہ صورت میں  چونکہ پہلے سے اجرت کی بابت کوئی صراحت نہیں  کی گئی اس لیے دستور کے موافق اجرت ہو گی۔ تین ہزار وہاں  کے عرف کے موافق ہے یا نہیں ؟ اس کا فیصلہ وہاں  کے عرف کو سامنے رکھ کر کیا جا سکتا ہے

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved