• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

نکاح کرنے کی ایک صورت اورمذاکرہ طلاق

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

میری یونیورسٹی کے ایک لڑکے نے اپنے دو دوستوں کو بٹھا کر اپنی کلاس فیلو سے نکاح کرلیا وہ اس طرح کہ دوستوں میں سے ایک نے نکاح پڑھایا اور گواہ بھی بنا دونوں کے گھر والوں کو اس بات کا علم نہیں ہے انہوں نے یہ سوچ کر نکاح کیا کہ ابھی ہماری پڑھائی جاری ہے اور گھر والے ابھی نہیں مانیں گے بعد میں ہم گھر والوں کو بتائیں گے لیکن تب تک اگر ہم لوگ ساتھ رہتے ہیں تو یہ ایک گناہ ہوگا تو بہتر ہے ہم اپنا اٹھنا بیٹھنا جائز کریں اور یہ صرف ایجاب و قبول کی حد تک ہے اس کا کوئی بھی تحریری ثبوت نہیں ہے (کیا یہ نکاح ہوا ہے کہ نہیں؟)

کچھ عرصہ بعد دونوں کے ہاں ایک بچے کی پیدائش کی خبر آئی۔ بچہ ابھی صرف ماں کے پیٹ میں دو ماہ کا تھا ان دونوں نے اپنے گھر والوں کو بتایا لڑکی کے گھر والوں نے بچہ رکھنے کا سوچا اور لڑکے کے گھر والوں نے کہا کہ بچہ ابھی صرف دو ماہ کا ہے اسے ضائع کر دیا جائے اخیر حل یہ نکلا کہ بچہ ضائع کردیا گیا اس کے بعد لڑکا لڑکی کو چھوٹی موٹی باتوں پر طعنے مارتا ہے اور ہاتھ بھی اٹھاتا ہے ۔ لڑکی نے اس سے علیحدگی کا فیصلہ کیااب اگر نکاح نہیں ہوا تو پھر تو صحیح اور اگر نکاح ہوا ہے تو طلاق کیسے لی جائے جبکہ لڑکا علیحدگی کے لیے تیار نہیں ہے لڑکی پوچھتی ہے کہ اس کا کفارہ کیا ہوگا اگر گناہ ہو گیا اس طرح کا یعنی حرام کاری کا؟

وضاحت (1) نکاح میں کتنے لوگ شریک تھے؟

(2) نکاح میں الفاظ کیا بولے تھے؟

(3) طعنے میں کونسے الفاظ بولے تھے؟

(4)لڑکا لڑکی کا کفو(برابر ی کا) ہے یا نہیں؟

جواب وضاحت۔ (1) کل چار تھے (میاں ،بیوی ،اور دو لڑکے)

(2)جو الفاظ لڑکے سے کہلوائے

کیا آپ کو مسفرہ ہارون ولد ہارون حق مہر پچاس ہزار روپے کے عوض اپنے نکاح میں قبول ہے؟ جواب ،قبول ہے۔

جو الفاظ۔ لڑکی سے کہلوائے ۔

کیا آپ کو عمر جنید ولد محمد نعیم اپنے نکاح میں قبول ہے ؟ جواب ۔ قبول ہے۔

(3) تمہار گھر چکلہ ہے تیری بھی باریاں لگنی ہیں

لڑکی نے کہا تھا کہ جس طرح آج کل آپ کا رویہ ہے مجھے آپ کے ساتھ اس طرح نہیں رہنا جواب میں شوہر نے کہا جا رہ لے جس کے ساتھ رہنا ہے تمہارا گھر چکلہ ہے تمہارا کام باریاں لگوانا ہے۔

(4) مسلمان ہیں ۔ اور پیشے میں لڑکے والے ٹیچر اور لڑکی ولے کاروباری لوگ ہیں ۔ دیانتداری میں دونوں کے گھر والے بالکل ٹھیک ہیں ۔ لڑکی بھی ٹھیک ہے اور لڑکا نکاح کے کچھ دن بعد دین سے دور ہونا شروع ہوگیا ۔مالداری میں لڑکے والے زیادہ مالدار ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں نکاح کاجو طریقہ اختیار کیا گیا تھا  وہ صحیح نہیں تھا اور اس طریقے سے کیا گیا نکاح شرعا ہوا بھی تھا یا نہیں؟ یہ بھی محل نظر ہے اور اس وقت اس بحث میں جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ اگر ہوا بھی تھا تو اب باقی نہیں رہا جس کی وجہ یہ ہے کہ مذکورہ صورت میں لڑکی کے مطالبے پر کہ’’ جس طرح آج کل آپ کا رویہ ہے مجھے آپ کے ساتھ اس طرح نہیں رہنا‘‘ لڑکے نے جب یہ کہا کہ’’ جا ،رہ لےجس کے ساتھ رہناہے‘‘تو اس کے اس کہنے سے بیوی کے حق میں ایک بائنہ طلاق ہو گئی جس کی وجہ سے اگر نکاح ہوا بھی تھا تو نکاح ختم ہو گیا کیونکہ بولے گئے الفاظ کنایات طلاق کی تیسری قسم میں سے ہیں جو غصے یا مذاکرا ہ طلاق کے موقع پر بولے جائیں تو ان سے بیوی کے حق میں ایک بائنہ طلاق ہوجاتی ہے ۔

مذکورہ صورت میں عورت کی جانب سے نہ رہنے کا تذکرہ سوال میں موجود ہے جس کے جواب میں لڑکے نے مذکورہ الفاظ استعمال کئے ہیں یعنی مذاکرہ طلاق متحقق  ہے اور طلاق ہو چکی ہے۔ لہذامذکورہ صورت میں سابقہ پر توبہ اور استغفار کیا جائے اور لڑکے سے طلاق لینے کی ضرورت نہیں۔

فی الدرالمختار: 102/4

ولو زوج بنته البالغة العاقلة بمحضر شاهد واحد جاز ان کانت ابنته حاضرة لانها تجعل عاقدة والالا۔

حاشية ابن عابدين (3/ 25)

قوله ( ولو زوج بنته البالغة العاقلة ) كونها بنته غير قيد فإنها لو وكلت رجلا

 غيره فكذلك كما في الهندية وقيد بالبالغة لأنها لو كانت صغيرة لا يكون الولي شاهدا لأن العقد لا يمكن نقله إليها۔بحر وبالعاقلة لأن المجنونة كالصغيرة۔

اوایضا فیه 150/4

فنفذ نکاح حرة مکلفة بلارضا الولی ۔

الفتاوى الهندية (1/ 374)

الكنايات ثلاثة أقسام ما يصلح جوابا لا غير أمرك بيدك اختاري اعتدي وما يصلح جوابا وردا لا غير اخرجي اذهبي اعزبي قومي تقنعي استتري تخمري و

ما يصلح جوابا وشتما خلية برية بتة بتلة بائن حرام والأحوال ثلاثة حالة الرضا وحالة مذاكرة الطلاق بأن تسأل هي طلاقها أو غيرها يسأل طلاقها وحالة الغضب ففي حالة الرضا لا يقع الطلاق في الألفاظ كلها إلا بالنية والقول قول الزوج في ترك النية مع اليمين وفي حالة مذاكرة الطلاق يقع الطلاق في سائر الأقسام قضاء إلا فيما يصلح جوابا وردا فإنه لا يجعل طلاقا كذا في الكافي وفي حالة الغضب يصدق في جميع ذلك لاحتمال الرد والسب إلا فيما يصلح للطلاق ولا يصلح للرد والشتم كقوله اعتدي واختاري وأمرك بيدك فإنه لا يصدق فيها كذا في الهداية وألحق أبو يوسف رحمه الله تعالى بخلية وبرية وبتة وبائن وحرام أربعة أخرى ذكرها السرخسي في المبسوط وقاضي خان في الجامع الصغير وآخرون وهي لا سبيل لي عليك لا ملك لي عليك خليت سبيلك فارقتك

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved